دیکھا جائے تو ہماری قوم عوام کے بہت المیے ہیں جن میں ایک المیہ یہ بھی ہے کہ ہم ہر وقت منتظر رہتے ہیں کہ کوئی آئے اور ہمارا کام کرے آئے اور ہماری ذمہ داری لے کوئی آئے اور یہ فیصلہ کرے کوئی آئے اور ہمارے کندھوں سے بوجھ ہلکا کرے لیکن ہم نے کچھ نہیں کرنا اگر ماضی کی کتاب کے اوراق الٹ کر دیکھا جائے تو ہمارا ایک عظیم الشان ماضی تھا ہم کیا تھے ہم لوگ کٹی پتنگ نہ تھے ہم لوگوں کے آگے ضابطہ حیات تھا ہمارا ایک مقصد تھا آگے بڑھنے کا ہم یہاں پر کسی کام کے آئے تھے جو ہمیں اکثر بھلا چکے ہیں
دنیا میں کوئی قوم یا لوگ جب بھی ابھر کر سامنے آئے ہیں تو وہ اپنی محنت لگن اور جستجو کی بنا پر آئے ہیں مسلسل کوشش ان کو اوپر لے کر آئی ہے ہم لوگ کس کے منتظر ہیں محمد بن قاسم صلاح الدین ایوبی طارق بن زیاد یہ لوگ پیدا نہیں ہوئے یہ پیدا کیے گئے حالات و واقعات اور ضرورت نے ان کو پیدا کیا اسلام کو ان کی ضرورت تھی دین ملک و قوم کو ان کی ضرورت تھی آج ہم بحیثیت قوم کہاں پر کھڑے ہیں ہمارا کیا کردار ہے اس سب میں ہم کیا کر رہے ہیں اور کس سمت جا رہے ہیں
آج کا مسلمان نہ صرف جنگی میدان میں بلکہ تعلیمی تحقیقی اور تکنیکی میدان میں بھی مشرکوں سے پیچھے ہے اس کی کیا وجہ ہے ہم لوگ کیوں پیچھے رہ گئے نہ ہم دین کے رہے نہ دنیا کے نہ ہمارا اسلام اور دین پر عمل کامل ہے ورنہ ہمارے دنیا کے کاموں میں کوئی حیثیت ہے جس کی وجہ سے نہ ہمیں دنیا میں عزت مل رہی ہے اور نہ آخرت میں ہمارا مقام ہوگا
ایک بہن کی آواز پر محمد بن قاسم عرب سے دوڑا چلا ایا طارق بن زیاد نے اپنی غیرت عزت اور اسلام کو تقویت بخشنے کی خاطر سمندر کے کنارے پر کشتیاں جلا دی اس نے یہ جان لیا کہ یہاں سے واپسی کا راستہ نہیں ہے واپس جانے میں اس کی اپنی جان کی بقا تو ہوسکتی تھی لیکن دنیا دین اور آخرت کی بقااس میں نہ تھی اسے پتہ تھا کہ اگر اسلام کو عزت و احترام اور رتبہ بخشنا ہے تو کشتیاں جلا نہیں پڑے گی اسی پر منحصر ہونا پڑے گا صرف اور صرف ایک ہی راستہ ہے اور وہ ہے جیت کا گر جیت گئے تو پوری دنیا ہماری ہے اور اگر ہار گئے تو پھر بھی عزت سے سر کروائیں گے نہ کہ غیر کے قدموں میں پڑے رہیں گے
ہم ایک شاندار ماضی کے مالک ہیں لیکن ہمارا حال اور مستقبل بالکل اس چیز سے منسلک نہیں ہے
دنیا کی چھوٹی چھوٹی اقوام نے محنت لگن اور جستجو کے بل پر اپنی عزت کا لوہا منوایا لیکن ہم کثرت ہونے کے باوجود خوار ہو رہے ہیں اس کے پیچھے کیا وجہ ہے کچھ وجوہات جو مجھے سمجھ آتی ہے بے مقصد کی چیزوں پر اپنی توانائیاں صرف کرنا ہمارا نوجوان اقبال کا شاہین یہ شاہین جو کبھی مردہ گوشت نہ کھایا کرتا تھا آج اس کا مشغلہ صرف ایک ٹک ٹاک اور فضول کے کام ہے جن کا نہ کوئی فائدہ اور نہ کچھ اخذ ہے جس کی وجہ سے ہماری آنے والی نسل پر بہت منفی اثرات پڑ رہے ہیں

@QasimZaheer3

Shares: