صلاح الدین کی غلطی کی سزا، پنجاب پولیس اپنے آپ کو جہنمی دروغے سمجھ بیٹھی ، ظلم اتنا کہ زبان سے بیان کرنا مشکل

0
78

لاہور :صلاح الدین نے اے ٹی ایم کیا توڑی کہ پولیس نے مار مار کر صلاح الدین کی ہڈیاں ہی توڑدیں ، پھر اتنا مارا کہ مار مار کر مار ہی دیا ، صلاح الدین نے اے ٹی ایم مشین توڑنے کی یہ پہلی کوشش نہیں کی بلکہ اس سے پہلے بھی وہ گاہے بگاہے کوششیں کرتا رہا ہے.

کیا پولیس اور بینک انتظامیہ کو کیا پہلے پتہ نہیں تھا کہ کوئی شخص اے ٹی ایم کو توڑنے کی کوشش کررہا ہے، یقینا بینک انتظامیہ کو پتہ ہوگا اور پولیس کو بھی آگاہ کیا ہوگا ،ایسے ہی صلاح الدین نے ایک کوشش پہلے بھی کی جس کے بارے میں باغی ٹی وی تصویر کا دوسرا رخ پیش کررہا ہے.

https://www.youtube.com/watch?v=Z798gsVigbc

باغی ٹی وی کے مطابق یہ ATM حبیب بنک وحدت روڈ لاہور کی ہے 7 :15 منٹ پر داخل ہونے والے شخص کی رہائش بھی ساتھ وارث کالونی میں ہے اور ساتھ کھڑا شخص صلاح الدین ہے جو پولیس تشدد سے ہلاک ہوچکا ہے یہ نا تو زھنی مریض تھا نا ہی گونگا یا اللہ لوک یہ گونگا بننے کی اور اشاروں سے بات کرنے کی اداکاری کر رہا تھا .

باغی ٹی وی کو حاصل ہونے والی اس ویڈیو میں جو معلومات حاصل ہوئی ہیں اس کے مطابق صلاح الدین کا طریقہ واردات یہ تھا کہ سب سے پہلے اس نے جہاں سے پیسے نکالے جاتے ہیں وہاں پر سلپ کی پرچیاں گھسا دیتا ہے تاکہ پیسے باہر نا آسکیں اور اسکے اور پھر مشین کو توڑنے کی کوشش کرتا ہے تاکہ اسکے اندر وائس ڈیوائس رکھے وہ نیں ٹوٹتی تو مشین کی بیک سائیڈ پر ایک ڈیوائس چھپا دیتا ہے اور اسکا ریموٹ اپنے ہاتھ میں لے لیتا ہے

وائرل ہونے والی اس ویڈیو میں دیکھا جاسکتا ہے کہ صلاح الدین ایک کارنر میں کھڑا ہوجاتا ہے اور پاسورڈ دیکھنے کی کوشش کرتا ہے اور ریموٹ دباتا ہے تو وائس ڈیوائس سے آواز آتی ہے "اپکا کارڈ کیپچر ہوگیا ہے برانچ سے رابطہ کریں اس وقت برانچ بھی بند ہوتی ہے وہ بندہ باہر جاتا ہے تو یہ فورا کارڈ نکالتا ہے اور باہر نکل جاتا ہے پاس ورڈ بھی اسکے پاس ہوتا ہے کارڈ بھی اسکے پاس ہوتا ہے کسی بھی دوسری برانچ سے جا کے پیسے نکلوالیتا ہے

باغی ٹی وی کے مطابق اس ویڈیوسے ظاہر ہوتا ہےکہ یہ بندہ جو 7:15 پر داخل ہوتا ہے اسکے اکاونٹ سے اس بندے نے کریم بلاک برانچ الائیڈ بنک سے 7:35 منٹ پر 25000 ہزار کی 2ٹرانزکشن کیں اور 50 ہزار نکلوا کر لے گیا صرف 20 منٹ میں لیکن پولیس تشدد کی اجازت پھر بھی نیں دی جاسکتی یہ ویڈیو 2017 کی ہے


یہ تو تھا صلاح الدین کے حوالے سے تصویر کا دوسرا رخ لیکن یہ قوم پوچھتی ہے کہ کیا اس جرم کی سزا یہ ہے کہ کسی مجرم پر اتنا جرم کرو کہ وہ تشدد ، تکلیف اور ظلم کی وجہ سے ہی دم توڑ جائے ، کیا آئین یہ اجازت دیتا ہےکہ انسانیت کو اس طرح ذلیل ورسوا کرکے ماردیا جائے ،

کیا دنیا میں وحشت اور درندگی اس حدتک بڑھ گئی ہے کہ پولیس جسے چاہے مار دے ، جسے چاہے بیوہ کردے ، جسے چاہے یتیم کردے اورجسے چاہے اس کے لیے قیامت کا نظام تھانے اور کچہری میں قائم کردے . ہرگز ایسا نہیں ہوسکتا اور نہ ہی دنیا کا کوئی گیا گزرا معاشرہ اس بات کی اجازت دے سکتا ہے جس کا لاسئنس پنجاب پولیس نے حاصل کررکھا ہے. صلاح الدین کے ساتھ ہونے والے ظلم نے تو پتھر دل انسان کو بھی ہلا کر رکھ دیا ہے.

پولیس گردی میں جانبحق ہونےوالے صلاح الدین کے گھر والوں کو ابتدا میں محض شک تھا کہ ان کی موت تشدد کا نتیجہ ہے۔ وہ پولیس کی تحویل میں ہلاک ہوئے تھے۔ پاکستان میں اس نوعیت کی اموات کے بارے عام تاثر یہی پایا جاتا ہے۔

صلاح الدین کے لواحقین کا یہ شک اس وقت یقین میں بدلا جب ان کی لاش کو گجرانوالہ میں ان کے آبائی علاقے لایا گیا اور تدفین سے قبل اسے غسل دینے کا وقت آیا۔ ان کے والد اور بڑے بھائی ظہیرالدین نے اس وقت پہلی بار صلاح الدین کے بدن پر تشدد کے نشانات دیکھے۔

بڑے بھائی ظہیرالدین بتاتے ہیں کہ جب صلاح الدین کو غسل دیا جارہا تھا تو اس دوران بہت بھیانک صورت حال دیکھنے کو ملی وہ بتاتے ہیں کہ ‘ایک بازو پر بغل کے نیچے اس طرح سے ماس اکھڑا ہوا تھا کہ جیسے استری کے ساتھ جلایا گیا ہے یا کرنٹ لگایا گیا ہے۔ جلد اتری ہوئی تھی اس کی۔’

ظہیر الدین بتاتے ہیں‌ کہ دوسری طرف کندھے کے اوپر، کوہنی اور ہاتھ پر بھی کٹ لگے ہوئے تھے اور انھیں بعد میں سیا ہوا تھا۔ کمر پر بھی نشان تھے اور اس کے علاوہ جسم کی نازک جگہ پر تشدد کے نشانات تھے۔ وہ اس قدر سوجی ہوئی تھی کہ میں بیان نہیں کر سکتا۔’

صلاح الدین پر ہونے والے ظلم وتشدد کی داستان بیان کرتے ہوئے بڑے بھائی ظہیرالدین نے بتایا کہ صلاح الدین کے چہرے کا آدھا حصہ سیاہ ہو چکا تھا اور اس پر سوزش تھی۔ یہ سب دیکھنے کے بعد ان کے خاندان والوں کا مؤقف ہے کہ انھیں یقین ہے صلاح الدین کو پولیس نے تشدد کا نشانہ بنایا جس کی وجہ سے ان کی موت واقع ہوئی۔

دوسری طرف صلاح الدین کے والد کا کہنا تھا کہ بیٹا ذہنی مریض تھا، وہ اکثر اوقات ادھر ادھر نکل جاتا تھا اور ہم نے اس کے ہاتھ پر گھر کا پتا اور نام لکھوایا تھا تاکہ وہ گم ہوجائے تو کوئی اسے گھر پہنچادے

ذہنی معذور صلاح الدین کے قتل سے آج ریاست اور شہریوں کے مابین یہ میثاق ننگ دھڑنگ سرِ بازار جھومر ڈال رہا ہے۔ لکھ رکھیے، کسی کے خلاف کچھ نہیں ہوگا، کوئی ذمہ دار انجام کو نہیں پہنچے گا۔ معمول کی محکمانہ کارروائی ہوگی اور فائل بند کر دی جائے گی۔

پولیس میں اس طور کا تشدد کوئی نئی بات نہیں ہے۔ ایسے سینکڑوں واقعات سالانہ رپورٹ ہوتے ہیں۔ اس کام کے لیے باقاعدہ ٹارچر سیل بنے ہوئے ہیں۔ پولیس کا یہ وطیرہ بھی نیا نہیں ہے

صلاح الدین ایسے کئی بےگناہ، سرکاری کارندوں کے تشدد سے جان سے جاتے رہیں گے۔ ریاست محض تماشا دیکھے گی۔ وزیر اعظم سے لے کر وزراء تک عمل سے تہی داماں البتہ جملے بازی میں یدطولیٰ رکھتے ہیں۔

حکومت کا دامن صدچاک ہے، جنہوں نے بخیہ گری کا خواب دکھایا تھا وہ خود اسے تار تار کرنے کے درپہ ہیں تو پھر ریاست کے دامن صد چاک کی بخیہ گری کون کرے گا؟؟

Leave a reply