"امتحان ” اس جانچ کا نام ہے جس کے ذریعے یہ معلوم کیا جاتا ہے کہ طلباء نے کس خاص مضمون میں کس قدرمہارت اور سمجھ بوجھ حاصل کرلی ہے. تدریس کے مقاصد کس حد تک حاصل کیے گئے ہیں. اسکول میں تدریس کے عمل میں طلباء، اساتذہ اور والدین تینوں کا بنیادی کردار ہوتا ہے. کوئی ایک بھی اپنے کردار کو ادا کرنے میں غفلت کرے تو تدریس کا عمل متاثر ہوتا ہے. ملک عزیز میں کرونا کی آمد کے بعد معاشی، سماجی اور تعلیمی روابط بری طرح متاثر ہوئے ہیں.

تعلیم کو ہی دیکھیں تو تدریسی عمل اورامتحانی عمل دونوں بری طرح متاثر ہوئے ہیں. پہلے تو احتیاط کے طور پر تعلیمی اداروں کو فوری طور پر بند کردیا گیا تھا. پھر تدریس کے عمل کو online classes کی طرف لے جایا گیا تھا. یہ عمل کارآمد ثابت نہ ہوسکا. کیونکہ کبھی بجلی کی بندش اور کبھی انٹرنیٹ کی مختلف علاقوں میں عدم دستیابی ہوتی ہے. لیکن پھربھی یہ ایک عمدہ کاوش ضرور تھی.

گزشتہ سال طلباء کو بغیر امتحان لیے اگلی جماعت میں پروموٹ کردیا گیا تھا. انہیں تین نمبر اضافی بھی دیے گئے تھے. جبکہ انکی قابلیت میں مطلوبہ اضافہ نہیں ہوا تھا. رواں سال طلباء سے صرف اختیاری مضامین کا امتحان لینے کا فیصلہ کیا گیا ہے. اس فیصلے کا جواز سمجھ سے باہر ہے. جب طلباء مطلوبہ قابلیت نہیں رکھتے تو انہیں اپ کس حد تک سہارا دے سکتے ہیں.

یہ بات سمجھ سے باہر ہے.
کیا یہ لازمی مضامین کو نظر اندازکرنے کے مترادف نہیں ہوگا؟
"لازمی ” کیسے غیر ضروری؟
کیا یہ طلباء مستقبل میں معاشرے کے لئے اس حد تک کارآمد ہونگے جتنا کہ انکو ہونا چاہیئے ہے؟

والدین نے کرونا کے دوان خراب معاشی حالات کے باوجود اپنے بچوں کے لئے معمول سے زیادہ کوشش کر کے online classes کے دوران اپنے بچوں کو کمپیوٹر اور موبائل لے کر دینا اور انٹرنیٹ کا اضافی بوجھ اٹھانا ہر طبقے کے لئے سہل نہیں تھا. اساتذہ اور طلباء نے ایک نئے طریقہ تدریس کو اپنایا جسکی اس سے پہلے مثال نہیں تھی. "سمارٹ لاک ڈاؤن کے ساتھ سمارٹ سلیبس” کی اصطلاح بھی سماعتوں نے سنی ہے. جب طلباء تمام سلیبس میں مہارت حاصل نہیں کریں گے تو مطلوبہ نتائج تو حاصل نہیں ہوں گے. بلکہ کمزورنتائج حاصل ہوں گے.

یونیورسٹی میں داخلہ لینے والے طلباء کے مسائل بھی توجہ طلب ہیں. یونیورسٹیاں کرونا کے باعث پیدا ہونے والی صورتحال میں بھی اپنے مطلوبہ معیارسے نیچے آنے کو تیار نہیں ہیں. انکا کہنا ہے کہ پہلے سمسٹر کو مکمل کرنے سے پہلے گزشتہ امتحان میں مطلوبہ نمبرز کا ہونا ضروری ہے.

جو طلباء مطلوبہ معیار پر پورا نہیں اتریں گے ان کی یونیورسٹی کو ادا کی گئی فیسوں اور پہلے سمسٹر میں لگائے جانے والےوقت کا کیا ہوگا؟
کیا ان پر یہ اضافی دبائو نہیں ہوگا کہ آگےانکے ساتھ کیا ہوگا؟

سونے پرسہاگہ ہمارا تعلیمی نظام جو جدید تعلیمی اصولوں سے ابھی کوسوں دور ہے. تعلیمی اداروں کا تمام تر زور اپنے تعلیمی کاروبار سے منافع حاصل کرنے پر ہے. تعلیم کا معیار بہتر بنانا، طلباء کی صلاحیتوں کو نکھارنا انکا مطمع نظر ہے ہی نہیں. رہی سہی کسر ہمارا امتحانی نظام اور نقل کا بڑھتا ہوا رجحان پوری کردیتا ہے. امتحانات میں مارکنگ کے لئے جدید ٹیکنالوجی اور تربیت یافتہ عملے کی بہت ضرورت ہے. ہمارا تعلیمی نظام بہت زیادہ کمزوریوں کا شکار ہے. فوری توجہ کا طالب ہے. تاکہ تیزی سے گرتے ہوئے تعلیمی معیار کو بہتری کی طرف لے جایا جاسکے.

جب تلک یہ سوچوں کا زاویہ نا بدلے گا
منزلیں نا بدلیں گی ,راستہ نا بدلے گا

@its_usamaislam

Shares: