سابق ایس ایس پی راؤ انوار کو پروگرام میں بلانے پر سلیم صافی تنقید کی زد میں

گزشتہ 18 جون کی شب معروف اینکرپرسن سلیم صافی نے سابق ایس ایس پی ملیر راؤانوار کو جیونیوز کے پروگرام جرگہ میں بلایا جس میں ان سے نقیب اللہ محسود کےقتل سمیت متعددپولیس مقابلوں پرسوالات کئے جس پر سابق ایس ایس پی نے اینکر کو جواب دیا کہ : ” میں پورے پاکستان کو چیلنج کرتاہوں کہ اگر کوکوئی نقیب اللہ ولد محمدخان کا شناختی کارڈ یا فارم (ب) لے آئے تو میں سزا کیلئے تیار ہوں۔

ایک اور سوال کے جواب میں راؤانوار نے بتایا: "پولیس والے کاویسے بھی ففٹی فٹفی ہوتا ہے، ایک چور آتاہے اور ایک شریف آدمی اب پولیس والا چور کاساتھ دے تو شریف آدمی ناراض اور شریف آدمی کا ساتھ دو تو چور ناراض ہوجاتا ہے۔”

قبائلی نوجوان نوید الحق اورکزئی نے باغی ٹی وی سے بات کرتے ہوئے سوال کیا کہ: آخر سلیم صافی کو کیاضرورت ہے کہ ہزاروں لوگوں کے قاتلوں کو ہی اپنے پروگرام میں بلاتا ہے ؟ سلیم صافی نے سابق ایس ایس پی ملیر راؤ انوار کو اپنے ٹی وی پروگرام میں بلاکر کوئی پہلی بار کسی قاتل کا انٹرویو نہیں کیا بلکہ اس سے پہلے بھی وہ ہزاروں لوگوں اور آرمی پبلک سکول کے معصوم بچوں پر حملے کی ذمہ داری قبول کرنے والے قاتل اور ٹی ٹی پی کے سابق ترجمان احسان اللہ احسان کا انٹرویو کرچکے ہیں۔

نوید نے مزید کہا کہ : بطور ایک قبائلی پختون مجھے دکھ ہوا کہ ایک پختون صحافی ہونے کی حثیت سے سلیم صافی نے صرف نقیب اللہ محسود کے قاتل کا ہی نہیں بلکہ چار سو زائد بےگناہوں کے قاتل کا انٹرویو کیا۔ لہذا انہیں یہ ضرور بتانا چاہیے کہ وہ ہمیشہ قاتلوں کا انٹرویو ہی کیوں کرتے ہیں۔
اس کے علاوہ یہ ذمہ دار ی میڈیا کے اداروں پر بھی عائد ہوتی ہے کہ وہ اس طرح کے متنازعہ اور مجرموں کی انٹرویو ز نشر نہ کرے ۔

لیکن سلیم صافی نے اپنا موقف پیش کرتےہوئے کہاکہ:” کسی کا انٹرویو کرنے کا یہ مطلب ہرگز نہیں ہوتا کہ آپ اس انسان کے ہمنوا بن گئے ہیں ۔ انہوں نے مثال دیتےہوئے بتایاکہ میں اپنے پروگرام میں شبلی فراز کو نہیں بلاتا تھا لیکن جب وہ حکومتی ترجمان بن گئے تو پھر ان کا موقف لینا میری مجبوری بن گیا اسی طرح اسامہ بن لادن نائن الیون کا ذمہ دار تھا مگر انکے انٹرویوز سی این این اور الجزیرہ پر نشر کئے جاتے تھے۔

صحافی فیض اللہ لکھتے ہیں کہ: "راؤ انوار کا انٹرویو ہوسکتا ہے مگر اسکے خلاف پانچ برس سے احتجاج کرتے مظاہرین کو دس سیکنڈ کے لئیے دکھایا جاسکتا ہے نا ہی انکا ایک منٹ کا انٹرویو چل سکتا ہے اسے کہتے ہیں اظہار رائے کی آزادی کا شاندار نمونہ۔”


ایک صارف شبانہ شوکت لکھتی ہے کہ: "کیا یہ ہمارا سب سے بڑا المیہ نہیں کہ راؤ انوار جیسے سرکاری قاتل ٹی وی چینلز پر بیٹھ کر بھاشن دے رہے ہیں؟”


اینکرپرسن سلیم صافی نے ناقدین کو جواب دیتے ہوئے اپنے ایک پیغام میں لکھا کہ: میرے ساتھ انٹرویو میں سابق ایس ایس پی راو انوار نے جو دعوے کئے تھے، اسکےجواب میں ایم کیوایم پاکستان کے فاروق دادا مرحوم کی اہلیہ کا موقف ۔۔۔۔انٹرویو میں جن لوگوں کا ذکر ہوا ہے ان میں سے کوئی بھی اپنا موقف دینا چاہے تو میرے سوشل میڈیا پلیٹ فورم حاضر ہیں۔


ایک ٹوئٹرصارف ذیشان ممتاز نے ناقدین کے جواب پرسلیم صافی کو کہا کہ:
جس پلیٹ فارم میں قاتل کا انٹرویو کیا انصاف کا تقاضہ ہے اسی پلیٹ فارم پر ان کی دیگر جس پر قاتل نے الزام لگایا موقع دیں ورنہ یہ ڈھونگ نہ کریں اور مظلوموں پر نمک پاشی نہ کریں

Leave a reply