سلطنت عثمانیہ (1299-1922 جسے عثمانی سلطنت بھی کہا جاتا ہے ، جس کا تصور عثمان کے نام پر رکھا گیا 1258-1326 عیسوی) ،اس سلطنت کے پس منظر میں دیکھا جائے تو عثمان جو اس سلطنت کا بانی تھا اس کے والد اور دادا کی بیش بہا قربانیاں ہیں جس کے نتیجے میں اس نے یہ سلطنت قائم کی تھی لیکن انہوں نے آغاز کیا ان کے پاس اتنا بڑا زمین کا ٹکڑا نہیں تھا جہاں پر وہ اپنی آزادی کا اعلان کر سے سو عثمان کے حصے میں آیا اور اس نے یہ کار خیر انجام دیا اور یہ اگلے تقریبا آٹھ سو برس قائم رہیں اور اس نے نہ صرف اس ترکی کو بلکہ دوسرے دو براعظم یورپ اور افریقہ میں بھی اپنے پنجے گاڑے. سلطنت نے اناٹولیا ، جنوب مغربی یورپ ، سرزمین یونان ، بلقان ، شمالی عراق کے کچھ حصوں ، آذربائیجان ، شام ، فلسطین ، جزیرہ نما عرب کے کچھ حصوں ، مصر اور کچھ حصوں کو کنٹرول کیا۔ شمالی افریقی پٹی ، روڈس ، قبرص اور کریٹ کے بڑے بحیرہ روم کے جزیروں کے علاوہ۔ اپنے وقت کی سب سے مضبوط فوجی سپر پاور کے طور پر مشہور ، سلطنت جمود کا شکار رہی اور 16 ویں صدی عیسوی کے آخر سے طویل زوال کا سامنا کرنا پڑا یہاں تک کہ پہلی جنگ عظیم (1914-1918 عیسوی) کے بعد اس کی جگہ جدید جمہوریہ ترکی نے لے لی۔

گیارہویں صدی عیسوی میں ، سلجوک ترک ، ایشیائی میدان سے تعلق رکھنے والے لوگ جنہوں نے اسلام کا سنی نسخہ قبول کیا تھا ، فارس اور ہمسایہ مشرقی علاقوں پر چڑھ گئے اور پھر مغرب کی طرف اناطولیہ کی طرف بڑھے۔ وہاں ، انہوں نے بازنطینی سلطنت (330-1453 عیسوی) کی شاہی قوتوں کو 1071 عیسوی میں منزیکرٹ کے قریب ایک تباہ کن شکست سے نمٹا ، اور اس کے بعد کئی ترک قبائل نے اس علاقے کو آباد کیا۔ ۔
سلطنت عثمانیہ کے قیام سے پہلے صلیبی جنگ شروع ہو چکی تھی یہ وہی سلطنت عثمانیہ ہے جس کے آگے جاکر ایسے ایسے بادشاہ آئے جنہوں نے تاریخ رقم کردی.یوں ہی سلطنت عثمانیہ جس کے طفیل اللہ نے مسلمانوں کو قسطنطنیہ کے اوپر حکمرانی میں بسر کی اور اس خطہ ارض پر مکمل حکمرانی اللہ نے ان کو عطا کیآٹھ سال تک قائم رہنے والی سلطنت عثمانیہ بالآخر بیسویں صدی میں یورپین کا شکار بنی اور انہوں نے اس کو ٹکڑے ٹکڑے کر دیا اور اس کو ٹکڑے ٹکڑے کرنے والا کوئی اور نہیں ان کا اپنا ہی ایک حکمران مصطفی کمال اتاترک تھا جس نے خلافت کو ختم کر ایک ترکی ملک بنایا
یہ وہی سلطنت عثمانیہ تھی جس نے بڑے بڑے شاہ سوار اور بادشاہ پیدا کیے جس نے محمد فاتح جیسا سلطان بھی پیدا کیا . کئی سو سال بعد حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بشارت جس پر صادق آئے اور اس نے قسطنطنیہ کو فتح کیا اور مسلمانوں کی حکمرانی وہاں پر قائم کی اور مسلمانوں کے اندر ایک نیا جذبہ ایمانی اور روپوں کی جس کو آنے والے مسلمان دنیا نے بہت مفید انداز میں استعمال کیا اور اسلام کی اشاعت کی یہی وہ دور تھا جس میں یورپ اور ان ممالک میں جہاں پے یہودیت اور نصرانیت کی اکثریت تھی وہاں پر اسلام اپنے عابد سے چمکا پر پھیلا اور جتنی عزت حاصل کرسکتا تھا اتنی عزت اسلام نے حاصل کیں اور یہ سب اسی سلطنت عثمانیہ کی محروم منت تھا جس کو اللہ نے یہ عروج بخشا اور انہوں نے اللہ کے پیغام کا پرچار خوب اپنی سلطنت کے اندر کیا اور ان کے خاتمے کے بعد ہی اسرائیل جیسا فتن اس دنیا پر نمودار ہوا
اگر مورخ تاریخ کے ساتھ انصاف کرتے ہوئے تاریخ کو لکھے گا تو وہ ضرور لکھے گا کہ جو اسلام کو معیار عزت اور مرتبہ اللہ نے سلطنت عثمانیہ کے طفیل بخشا ہے وہ شادر نادر ہی ہمیں اسلامی ہسٹری میں نظر آتا ہے آج کے تناظر میں دیکھیں تو وہ جذبہ اور وہ مقام بالکل ناپید ہے جو سلطنت عثمانیہ کے طفیل اللہ نے اسلام کو نوازا اور اگر خلفائے راشدین کے بعد دیکھا جائے تو سلطنت عثمانیہ نے اسلام کی بھرپور خدمت کی اور اسلام کے سورج کو اپنی آب و تاب سے چمک آیا اور دنیا پر ہر اس سے پھیلایا جس سے ان کو پھیلا سکتے تھے

@QasimZaheer3

Shares: