مزید دیکھیں

مقبول

ایران کی بلوچستان میں جعفر ایکسپریس پر حملے کی مذمت

ایران کی جانب سے بلوچستان میں کوئٹہ سے پشاور...

سیالکوٹ: زیر تعمیر یونیورسٹی کو فعال کرنے کی تیاریاں، 15 روز میں نیا پلان طلب

سیالکوٹ،باغی ٹی وی(بیوروچیف شاہدریاض) صوبائی وزیر ہائیر ایجوکیشن پنجاب...

پنجاب پولیس نے دہشتگردوں کا ایک اور حملہ ناکام بنا دیا

پنجاب پولیس نے خیبر پختونخوا کی سرحد پر دہشت...

وزیراعظم کا کل کوئٹہ کے دورے کا امکان

وزیراعظم شہباز شریف کا کل کوئٹہ کے ایک روزہ...

حجاب پہننے والی ہندوستانی مسلم پائلٹ،سلویٰ فاطمہ کی کامیابی کا حیرت انگیز سفر

سلویٰ فاطمہ کی کامیابی کا حیرت انگیز سفر

حجاب پہننے والی ہندوستانی مسلم پائلٹ

سیدہ سلویٰ فاطمہ نے حیدرآباد کے پرانے شہر میں غربت میں آنکھ کھولی۔ وہ چار بہن بھائیوں میں سب سے بڑی ہیں۔ ان کے والد اشفاق احمد ایک بیکری میں یومیہ اجرت پر کام کرتے تھے۔ لیکن فاطمہ بچپن سے ہی ایوی ایشن سے متعلق اخباری آرٹیکل پڑھا کرتیں، انھیں محفوظ کرلیا کرتی تھیں اور گھنٹوں ان پر طیاروں کی تصاویر کو دیکھا کرتی تھی۔

قارئین: سلویٰ فاطمہ آج دنیا بھر میں ہندوستان کی حجابی پائلٹ کے طور پر پہچانی جاتی ہیں۔ وہ ہندوستان کی ان چار مسلم خواتین میں سے ایک ہیں جن کے پاس کمرشیل پائلٹ لائسنس(سی پی ایل) ہے۔ وہ اپنی تربیت ہندوستان بلکہ بیرون ملک میں بھی سراہا گیا۔ وہ ہندوستان میں مسلم خواتین کو بااختیار بنانے کی سنہری مثال ہیں۔ سلویٰ فاطمہ کی کہانی اس بات کو نکارتی ہے جہاں اکثر کہا جاتا ہے کہ ٹیلنٹ کے بعد بھی مسلمانوں کو مواقع نہیں ملتے یا مسلمان لڑکیاں صرف گھریلو کام کے لئے پیدا ہوتی ہیں۔
https://twitter.com/IAMCouncil/status/1630806947795546112?s=20
انتہائی غریب گھرانے سے تعلق رکھنے والی سلویٰ فاطمہ نے کبھی غربت کو اپنی کامیابی کی راہ میں رکاوٹ نہیں بننے دیا۔ انہوں نے بات کرتےہوئے بتایا کہ ان کا بچپن سے ہی پائلٹ بننے کا خواب تھا۔ بارہویں پاس کرنے کے بعد جب انجینئرنگ میں ایڈمیشن کی کوچنگ کے لئے داخلہ لیا تو مجھ سے میرے خواب کے بارے میں پوچھا گیا۔ چنانچہ میں نے پائلٹ بننے کی خواہش ظاہر کی۔ اس دوران لوگوں نے میرا مذاق اڑایا۔ میرے والدین بھی اس فیصلے سے مایوس ہو گئےمیرے والدین نے انجینئرنگ کرنے کا مشورہ دیا- لیکن جیسا کہ کہا جاتا ہے کہ "منزل وہ پاتا ہے جن کے خوابوں میں زندگی ہوتی ہے، پروں سے کچھ نہیں ہوتا، ہمت کے ساتھ پرواز ہوتی ہے۔”

روزنامہ سیاست کو دیئے گئے ایک انٹرویو میں سلویٰ فاطمہ نے بتایا کہ وہ عزیزیہ اسکول کی ایک ہونہار طالبہ رہی ہیں۔ میٹرک میں ان کا رزلٹ بہت اچھا تھا جس کی وجہ سے شہر کے ایک نامور کالج نے ان کی پچاس فیصد فیس معاف کر دی تھی- گرچہ والدین چاہتے تھے کہ وہ سائنس یا انجنیئرنگ کے کسی کورس میں داخلہ حاصل کریں لیکن وہ عام لڑکیوں سے کچھ مختلف کرنا چاہتی تھیں- پائلٹ بننا ان کا جنون تھا لیکن اپنے والدین کے کہنے پر سلویٰ نے ایک مفت کوچنگ سینٹر میں داخلہ لیا جہاں انجنیئرنگ اور میڈیکل کے انٹرنس ٹیسٹ کے امتحان کی تیاری کرائی جاتی تھی۔

سلویٰ فاطمہ مزید کہتی ہیں کہ کوچنگ سینٹر کی طرف سے نئے گروپ کی افتتاحی تقریب تھی- جب مجھے پتہ چلا کہ اس پروگرام کے مہمانِ خصوصی روزنامہ سیاست کے ایڈیٹر زاہد علی خان صاحب ہیں- تو میں نے اس پروگرام میں اپنے ٹیچر سے ویلکم اسپیچ کرنے کی ضد کی کیونکہ میرے لئے یہ خاص موقع تھا کہ میں زاہد علی خان صاحب کی توجہ اپنی جانب مبذول کراؤں- وہ کہتی ہیں انھوں نے میری اسپیچ سنی، اسپیچ کے بعد ان سے ملاقات ہوئی، تو انہوں نے مستقبل کے منصوبوں کے بارے میں پوچھا- میں نے بلا مبالغہ پائلٹ بننے کو کہا اور پائلٹ بننے کے لئے مالی امداد کی پیشکش کی۔

زاہد علی خان اور ان کے رفقاء کی تعاون سے فاطمہ نے 2007 میں آندھرا پردیش ایوی ایشن اکیڈمی میں داخلہ حاصل کیا- پانچ سال کی سخت ٹریننگ کی اور کمرشیل پائلٹ کا لائسنس حاصل کیا- علاوہ ازیں انہوں نے پرائیوٹ پائلٹ لائسنس اور فلائٹ ریڈیو ٹیلی فون آپریٹر کا لائسنس بھی حاصل کیا-

اس پوری ٹریننگ کے دوران سلویٰ فاطمہ نے سیسنا 152 اور 172 پر 200 گھنٹے پرواز کی- جس میں ان کی 123 گھنٹے کی سولو فلائٹ بھی شامل تھی۔ لیکن یہ ان کے خواب کو پورا کرنے کے لئے کافی نہیں تھا۔ اب انہیں بوئنگ یا ایئربس جیسے بڑے طیاروں کی تربیت حاصل کرنی تھی، جہاں اس ٹریننگ پر انہیں 35-30 لاکھ روپیے خرچ کرنے تھے۔

پیسے نا ہونے کی وجہ سے والدین نے شادی کی پیشکش کی اور وہ اس فیصلے سے راضی ہوگئیں۔ جب فاطمہ چار ماہ کی حاملہ تھیں، اس وقت تلنگانہ حکومت سے انہوں نے مدد کی اپیل کی، حکومت نے ان کی مدد کی اور نیوزی لینڈ میں ان کی ٹریننگ کے لئے 36 لاکھ روپے کی منظوری دی۔ نیوزی لینڈ میں اپنی ٹریننگ کے دوران فاطمہ نے 5 گھنٹے تک ملٹی انجن والا ہوائی جہاز اڑایا اور 10 گھنٹے تک سمیلیٹر پر ٹریننگ کی۔ اس کے بعد انہوں نے بحرین میں گلف ایوی ایشن اکیڈمی میں ایئربس پر ٹائپ ریٹنگ کوالیفائی کیا۔

قارئین: انڈیگو ایئر لائنز میں کام کرنے والی سلویٰ فاطمہ کا کہنا ہے کہ انہوں نے پائلٹ بننے کا خواب ضرور دیکھا تھا۔ لیکن انہیں کبھی یقین نہیں تھا کہ یہ خواب پورا بھی ہو گا۔ کیونکہ ان کے والد کو دو وقت کی روٹی کے لئے پوری طاقت سے جدوجہد کرنی پڑتی تھی کچھ لوگ ایسے بھی تھے جو ہمیشہ کہتے تھے کہ میں ایک عورت ہوں اور مجھے شادی کے بعد گھر اور بچوں کا خیال رکھنا ہے، یہ محنت رائیگاں ہے۔ لیکن نہ صرف میرے والدین بلکہ میرے شوہر اور سسرال والوں نے بھی مجھے ہر قدم آگے بڑھنے کی ترغیب دی۔

سلویٰ کہتی ہیں کہ میرے والد سید اشفاق احمد مجھے پیار سے ’”معجزہ لڑکی” کہتے ہیں اور کہیں نہ کہیں ٹھیک ہی کہتے ہیں کیونکہ ایک غریب باپ جو ایک بیکری میں ملازم ہے، جس کی روزآنہ کی تنخواہ محض تین سو روپے ہے- ایسی حالت میں اتنے بڑے خواب دیکھنا اور اسے تکمیل کرنے کے لئے بیٹی کے ساتھ جدوجہد کرنا کسی بھی باپ کے لئے معجزہ ہی ہو سکتا ہے-

وہ مزید کہتی ہیں کہ میں ایک پائلٹ بننے کا خواب ضرور دیکھتی تھی لیکن میرے پاس اتنے پیسے بھی نہیں تھے کہ ہوائی جہاز کا ٹکٹ خرید سکوں- یہ خدا کا شکر اور میری خوش قسمتی ہے کہ میری پہلی اڑان مسافروں والے سیٹ سے نہیں بلکہ کاکپٹ سے تھی-

حجاب پہننے کی وجہ سے کسی طرح کی دشواری کے سوال پر وہ کہتی ہیں کہ انہیں کبھی کسی پریشانی کا سامنا نہیں کرنا پڑا۔ بلکہ حجاب کی وجہ سے انہیں بحرین میں بہت سراہا گیا۔ ایک میگزین نے ان کے لباس اور حجاب کے ساتھ تصویر بھی شائع کی اپنی بیٹی کے حوالے سے کہتی ہیں کہ "میں چاہتی ہوں کہ وہ آئی اے ایس آفیسر بنے۔”

مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی حیدرآباد کے شعبہ ترسیل عامہ و صحافت کے ایسوسیٹ پروفیسر محمد مصطفیٰ علی سروری سلویٰ فاطمہ کے حوالے سے بتاتے ہیں کہ سلویٰ کے شروعاتی ادوار تھے جب میں نے روزنامہ سیاست کے لئے ان کا ایک انٹرویو کیا تھااس وقت سلویٰ اس قدر مشکلات و پریشانیوں سے دو چار تھیں کہ لگتا تھا ان کا خواب ٹوٹ جائے گا- وہ جو خواب دیکھ رہی ہیں وہ خواب ان کے لئے نہیں بنے ہیں- گویا کہ ہر فرد ان کے ناکام ہونے کی بات کرتا تھامیں نے خود ان کے انٹرویو کی جو سرخی لگائی تھی وہ تھی "غریبوں کے خواب کبھی مکمل نہیں ہوتے” لیکن سلویٰ لوگوں کے مختلف باتوں کو درکنار کرتے ہوئے اپنے مشن میں پر عزم رہیں- یہی وجہ رہی کہ آج انہوں نے اپنے اس خواب اور مشن کو شرمندہ تعبیر کیا-

سلویٰ فاطمہ جو خواتین کو بااختیار بنانے کا چہرہ بن چکی ہیں- ان کو ممبئی میں قائم خواتین کو بااختیار بنانے کی ایک تنظیم نے اپنی برانڈ ایمبیسیڈر کے طور پر بھی مقرر کیا ہے تاکہ پسماندہ خواتین کو تعلیم حاصل کرنے میں مدد کی جا سکے وہ خواتین کو پیغام دیتے ہوئے کہتی ہیں کہ عورتیں کسی بھی شعبےمیں رہیں لیکن اپنےخواب کوکبھی بھی ترک نہ کریں۔ وہ اپنے اس سلوگن کا اعادہ کرتی ہیں کہ "جہاں مرضی ہوتی ہے وہاں راستہ ہوتا ہے۔” مشکلات اور ناکامیاں کامیابی کا حصہ ہیں۔ اگر آپ کامیاب ہونا چاہتی ہیں تو انہیں کبھی بھی اپنے آپ پر حاوی نہ ہونے دیں۔

~ عبد المقیت
عبید اللّہ فیضی