سماجی خدمات،  سماجی میڈیا تک محدود تحریر: ذوالفقار علی

0
31

اسلام میں سماجی کام اور سماجی خدمات کو بڑا زرف حاصل ہے ۔ ہمارے نبی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے سماجی خدمات کرنے پہ بہت زور دیا ہے ۔ یہ کہنا غلت نہیں ہوگا کہ سماجی خدمت کرنا ایک انسان کی تکمیل ہے ۔ اگر کسی انسان سے احساس اور ہمدردی نکال دی جائے تو وہ انسان صرف ایک اکس بن کر رہ جاتا ہے ۔ اس انسان کا وجود ایک مجسمےکی طرح ہے ۔

اگر انسان مکمل ہوتا ہے، بنا احساس کے ۔
تو بے عیب مجسمیں بھی مکمل ہیں بنا روح کے ۔ 

احساس معاشرے کو توازن میں رکھنے کے لیے نہایت ضروری ہے
ایک معاشرے میں کئی اقسام کے طبقے ہوتے ہیں جیسہ کہ امیر ،غریب ۔ ان میں توازن تب ہی ممکن جب ایک دوسرے کے لیے احساس ہو۔ کیونکہ احساس ایک معاشرے میں امن قائم کرنے کا ایک اوزار ہے۔

اگر آج بھی ہم دیکھیں تو دنیا میں وہی معاشرے
ترقی کی راہ پر غامزن ہیں جن میں احساس اور سماجی خدمت کا جزبہ ہے۔ لیکن آج کل ہمارے معاشرے میں احساس اور سماجی خدمات صرف ایک دکھااوا بن کر رہ گیا ہے ۔ 
ہر کوئی اپنے مفادات کے پیچھے بھاگ رہا ہے ۔ بنا کسی غرض کے کوئی کسی کا مددگار بھی نہیں بنتا۔ ہر چیز میں زاتی دنیاوی فائدہ ڈھونڈتے ہیں ۔ بس یہی وجہ ہے کے ہم آج دنیا سے بہت پیچھے کھڑے ہیں کیونکہ ہم نے دین کی تعلیمات کو بھلا دیا ہے ۔ ہمارے عمل ہماری باتوں سے برعکس ہیں ۔
 اگر ہم اس وبا کے دوران ہی خد کو دیکھیں، تو ہم سماجی خدمات اور احساسات سے کوسوں دور تھے ۔اس وبا کے دوران جب ہم سب کو ایک دوسرے کے سہارے کی ضرورت تھی ۔ کیونکہ یے ایک ایسا وقت تھا جس میں ہر کوئی اپنے کل کو لے کر پریشان تھا ۔ لوگوں کا روزگار وغیرہ سب بند تھے۔ اس وبا کے دوران سب سے زیادہ پریشان وہ غریب تبقہ تھا جو روز کماتے تھے، تو ان کے گھر کا چولہا جلتا تھا۔ کہیں لوگ بوکھ سے مر رہے تھے تو کہیں مایوس ہوکر خدکشی کر رہے تھے لیکن ہم حکومت اور سیاستدانوں کو سماجی میڈیا پہ قصوروار ٹھرا کر سمجھتے ہیں کہ ہم نے اپنا فرض ادا کر دیا ۔ لیکن کبھی کسی پڑوسی سے اس کا حال پوچھنے نہیں جائیں گے کہ کہیں وہ بھوکا تو نہیں۔لیکن ایک دوسرے کی مدد کرنے کے بجائے ایک دوسرے کا سہارا بننے کے بجائے سب سوشل میڈیا پر اپنے احساسات دکھا رہے تھے، بس چند لوگ ہی تھے جو اپنا فرض ادا کر رہے تھے جو حقیقی سماجی خدمات کر رہے تھے ۔ہالانکہ یہ وہ وقت تھا جس میں ہمیں اسلام کی تعلیمات پر عمل کرنا تھا۔ ہمیں آگے بڑہ کر ایک دوسرے کا سہارا بننا تھا۔ لازمی نہیں کہ کسی بڑے پیمانے پہ صدقہ کیا جائے اگر ہم صرف اپنے ہمسائے کے ہی مددگار بنتے تو کافی تھا ۔ کہا جاتا ہے نہ کہ صدقہ گھر سے شروع ہوتا ہے تو اپنے رشتیداروں کی طرف ہی مدد کا ہاتھ بڑہا دیتے ۔ کیونکہ شاید یہ وقت انسانیت کے لیے ایک امتحان تھا ۔ شاید یے وقت تھا انسانیت کو اجاگر کرنے کا ۔ شاید یہ وقت تھا ایک قوم بننے کا ۔ لیکن افسوس ایسے مشکل وقت میں
بھی ہم ایک قوم نہ بن سکے ۔ وہ قومیں ہی عظیم قومیں بنتی ہیں جن میں احساس ہے، جو سماجی خدمات کو اولین ترجیع دیتی ہیں جو قومیں احساس سے ایک متوازن معاشرہ قائم کرتی ہیں۔ کیونکہ ایک قوم تب ہی عظیم بنتی جب اس قوم کا ہر انفرادی فرد اپنی زمیداریاں پوری کرتا ہے ۔

Twitter: @zulfiqar7034

Leave a reply