لاہور کی انسداد دہشت گردی عدالت نے سانحہ ماڈل ٹاؤن کے بعد پولیس اہلکاروں پر تشدد کیس میں نامزد عوامی تحریک کے 12 کارکنان کو بری کر دیا۔ انسداد دہشتگردی عدالت کے جج اعجاز احمد بٹر نے فیصلہ سنایا۔ عدالت نے سانحہ ماڈل ٹاؤن کے بعد پولیس اہلکاروں پرتشدد کیس میں نامزد عوامی تحریک کے 12 کارکنان کو ناکافی ثبوتوں کی بناء پر بری کیا۔
عدالت نے فیصلہ سناتے ہوئے کہا کہ دوران ٹرائل ملزمان کیخلاف پراسیکیوشن کے الزامات ثابت نہیں ہوئے۔ پراسیکیوٹر کے مطابق سانحہ ماڈل ٹاؤن کے مقتولین کے چالیسویں میں شرکت کیلئے آنے والوں کا پولیس سے آمنا سامنا ہوا تھا، کارکنان نے زبردستی رکاوٹیں ہٹائیں اور پولیس اہلکاروں پر تشدد کیا۔
نعیم الدین چودھری ایڈووکیٹ کا کہنا ہے کہ دوران ٹرائل پولیس عوامی تحریک کے کارکنان کے خلاف کوئی ثبوت پیش نہ کرسکی، تھانہ فیصل ٹاؤن پولیس نے اگست 2014 کے دن کارکنان پر جھوٹی ایف آئی آرز درج کی تھیں،اگست 2014 کے دن پولیس نے ظلم بھی کیا اور بے گناہ کارکنوں پر جھوٹے مقدمات بھی قائم کیے
نعیم الدین چودھری ایڈووکیٹ کے مطابق مذکورہ کارکنان شہدائے ماڈل ٹاؤن کے منعقد کی جانے والی قرآن خوانی کی محفل میں شرکت کیلئے آئے تھے، کارکنان کے خلاف تھانہ فیصل ٹاؤن لاہور میں 663 نمبر ایف آئی آر کے تحت مقدمات درج کیے گئے تھے، بے گناہ کارکنوں کو بے گناہی ثابت کرنے کے لیے 8 سال لگے، پولیس نے عوامی تحریک کے مرکزی قائدین کے خلاف بھی جھوٹی ایف آئی آرز درج کر رکھی ہیں.
نعیم الدین چودھری ایڈووکیٹ کے مطابق عدالت سے استدعا کی گئی کہ مقدمہ میں ملوث کیے گئے تمام بے گناہوں کو بری کیا جائے جس پر عدالت نے اپنا فیصلہ سنا دیا.
قبل ازیں عوامی تحریک لاہور کے زیر اہتمام ایوان اقبال لاہور سے پریس کلب تک احتجاجی ریلی نکالی گئی تھی، شہدائے ماڈل ٹاؤن کی 8ویں برسی کے موقع پرکال فار جسٹس ریلی نکالی .ریلی میں شہداکے ورثا،انکے یتیم بچوں اور عوامی تحریک کے ہزاروں کارکنوں نے شرکت کی تھی،ریلی کی قیادت خرم نواز گنڈاپور،ڈاکٹر سلطان محمود چوہدری،رانا نفیس حسین قادری نے کی
ریلی سےخطاب کرتے ہوئے خرم نواز گنڈاپور کا کہنا تھا کہ 8سال کے بعد بھی ماڈل ٹاؤن کے مظلوم انصاف سے محروم ہیں ،غیر جانبدار تفتیش کیلئے قائم ہونے والی جے آئی ٹی پر تین سال سے سٹے آرڈر چل رہا ہے،زیر التوا اپیلوں اورسٹے آرڈر کا فائدہ ملزمان کو پہنچ رہا ہے، ریلی میں شریک ہزاروں کارکنان کی چیف جسٹس سپریم کورٹ سے انصاف دینے کی استدعا
عوامی تحریک لاہور کے زیر اہتمام نکلنے والی ریلی سے تنزیلہ امجد شہید کی بیٹی بسمہ امجد نے کہا کہ چیف جسٹس سپریم کورٹ سے مودبانہ سوال ہے میری والدہ کو پولیس نے کیوں قتل کیا؟ 8سال گزر جانے کے بعد بھی مجھے انصاف کیوں نہیں مل رہا؟،ریلی سے علامہ رانا ادریس،مظہر محمود علوی،عرفان یوسف،نورین علوی نے بھی خطاب کیا.
علاوہ ازیں سپیکر پنجاب اسمبلی چودھری پرویزالٰہی نے سانحہ ماڈل ٹاؤن کو آٹھ سال گزر جانے کے باوجود قاتلوں کو سزا نہ ہونے پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ آج 17 جون کا دن صرف افسوسناک اور شرمناک سانحہ کی وجہ سے نہیں جانا جاتا بلکہ شریفوں کے ہاتھ 14 بے گناہوں کے خون سے رنگے ہوئے ہیں، شریفوں کو دوبارہ اقتدار مل جانا ساری قوم اور اداروں پر سوالیہ نشان بن گیا ہے۔
چودھری پرویزالٰہی نے کہا کہ شہدائے ماڈل ٹاؤن کے وارثوں کو انصاف اور قاتلوں کو سزا نہ ملنا بہت بڑا المیہ ہے، جو لوگ شہید ہوئے ان کے لواحقین آٹھ سال گزر جانے کے باوجود آج بھی در بدر ہیں اور انصاف نہ ملنے کی دہائی دیتے ہیں، وہ جب ہماری عدالتوں کے سامنے سے گزرتے ہیں تو ہاتھ اٹھا کر انصاف کیلئے اللہ سے گڑگڑا کر دعا کرتے ہیں، اللہ کے ہاں دیر ہے اندھیر نہیں، دیر صرف زمینی انصاف دینے والے اداروں میں ہے۔
انہوں نے کہا کہ 17 جون کو قانون و انصاف اور انسانی حقوق کا گلا گھونٹا گیا لیکن یہ ضرور ہوا کہ شریفوں کا اصل چہرہ عوام کے سامنے آ گیا۔ چودھری پرویزالٰہی نے کہا کہ پولیس اور افسران کے ذریعے ماورائے عدالت قتل اور انسانیت کا قلع قمع کروانا شریفوں کا نہ صرف طرہ امتیاز ہے بلکہ آج بھی اقتدار ملنے کے بعد انہوں نے وہیں سے کام شروع کیا ہے۔
قبل ازیں سانحہ ماڈل ٹاؤن کی شہیدہ تنزیلہ امجد شہید کی بیٹی بسمہ امجد نے اپنی والدہ کی 8ویں برسی کے موقع پرچیف جسٹس سپریم کورٹ کے نام کھلے خط میں کہا تھا کہ سابق چیف جسٹس آف سپریم کورٹ میاں ثاقب نثار نے میرے سر پر ہاتھ رکھ کر کہا تھا کہ آپ اپنی والدہ کا تعلیم حاصل کرنے والا خواب پورا کریں انصاف آپ کو ہم دیں گے۔
ان کے اس دست شفقت سے میری انصاف ملنے کی امید قائم ہو گئی تھی اور میں نے ساری توجہ تعلیم پر مرکوز کر لی تھی۔17جون 2014ء کے دن میں 9ویں جماعت کی طالبہ تھی اب میں نے گریجوایشن کر لی ہے مگر انصاف کا دور دور تک نشان نہیں ہے۔ میاں ثاقب نثار نے غیر جانبدار تفتیش کے لئے جو جے آئی ٹی بنوائی تھی ماتحت عدالت میں وہ فیصلہ بھی ریورس ہو گیا اور تین سال سے سٹے آرڈر چل رہا ہے۔ میں سمجھتی ہوں کسی بھی ادارے کے سربراہ کی کمٹمنٹ پورے ادارے کی کمٹمنٹ ہوتی ہے۔ جس طرح کسی جج کا دیا ہوا فیصلہ تبدیل نہیں ہوتا اُسی طرح کمٹمنٹس بھی تبدیل نہیں ہوتیں۔
بسمہ کا کہنا تھا کہ میری چیف جسٹس سپریم کورٹ عمر عطاء بندیال سے اپیل ہے کہ میرے ساتھ انصاف کا کیا گیا وعدہ پورا کیا جائے اور مجھے بتایا جائے میری والدہ کو شہید کر کے مجھے ان کے سائے سے محروم کیوں کیا گیا؟انہوں نے کہا کہ جے آئی ٹی کے اہم کیس پر لاہور ہائیکورٹ میں تین سال سے سٹے آرڈر چل رہا ہے اور انسداد دہشت گردی کی عدالت میں ملزم ایک ایک کر کے بری ہورہے ہیں۔ کیااِسے انصاف کہتے ہیں؟۔مظلوموں کی درخواستیں سماعت کے لئے بھی مقرر نہیں ہوتیں اور ملزموں کی درخواستوں پر فیصلے ہو رہے ہیں؟۔ انصاف ہم مانگ رہے ہیں مگر ریلیف ملزموں کو مل رہے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ چیف جسٹس سپریم کورٹ سے قوم کی ایک مظلوم بیٹی کی اپیل ہے کہ سانحہ ماڈل ٹاؤن کیس کے ساتھ ہونے والے قانونی کھلواڑ کا وہ نوٹس لیں اور مظلوموں کے زخموں پر انصاف کی صورت میں مرحم رکھیں۔اگر آج وہ کمزور کی آوازبنیں گے تو ان شاء اللہ تعالیٰ قیامت کے دن انہیں اس غریب پروری کا اجرعظیم ملے گا۔انہوں نے کہا کہ یہ جملہ ہر روز عدالتوں میں بولا جاتا ہے انصاف میں تاخیر انصاف سے انکار ہے۔ہم 8سال سے انصاف کے منتظر ہیں۔