پاکستانی فلمساز عمار عزیز اور جرمن فلمساز کرسٹوفر پاٹز کی کراچی میں 8 سال قبل ہونے والے سانحہ بلدیہ پر بننے والی فلم ’ڈسکاؤنٹ ورکرز‘ انٹرنیشنل فلم فیسٹیول میں پیش کی جائے گی۔
باغی ٹی وی : کراچی کے علاقے بلدیہ ٹاؤن میں 8 سال قبل ایک کپڑا بنانے والی فیکٹری میں خوفناک آتشزدگی کے باعث فیکٹری میں کام کرنے والے سینکڑوں ملازمین لقمہ اجل بن گئے تھے رواں ماہ 11 ستمبر کو سانحہ بلدیہ کو 8 سال ہوجائیں گے –
یہ فلم اس سانحہ کی برسی کے موقع پر دکھائی جانی تھی لیک علامگیر وبا کی وجہ سے ایسا نہیں ہو سکا تام اب خبریں ہیں کہ یہ فلم اس سانحے کی آٹھویں برسی کے موقع پر یورپی ملک چیک ری پبلک کے شہر پراگ میں منعقد ہونے والے فلم فیسٹیول میں دکھائی جائے گی۔
تفصیلات کے مطابق اس موضوع پر پاکستان اور جرمنی کے اشتراک سے بننے والی فلم ’ڈسکاؤنٹ ورکرز‘ کا پریمیئردنیا کے سب سے بڑے انسانی حقوق کے’ون ورلڈ فلم فیسٹیول‘ میں 11 ستمبر ہوگا۔
The film will be shown at Kino Atlas. Friends in #Prague can get the tickets from here: https://t.co/pJE0rzSfgQ
— Ammar Aziz (@Ammar_Aziz) September 3, 2020
یہ فلم پاکستانی اور جرمن پروڈکشن کے اشتراک سے بنائی جارہی ہے جب کہ اس کی ہدایت کاری بھی پاکستانی فلمساز عمار عزیز اور جرمن فلمساز کرسٹوفر پاٹز نے کی ہے اور فلم کو ویرونیکا جنتکوانے پروڈیوس کیا ہے۔ اس فلم میں عام محنت کش طبقے کا قریب سے مشاہدہ کیا گیا ہے۔
Discount Workers is having its world premiere at #OneWorld, #Prague. The film follows Saeeda Khatoon and her comrades, who lost their children in the #Baldia factory fire, against the German clothing brand #KIK. It will be shown on Sep 11, which marks the anniversary of the fire. pic.twitter.com/pBETh7JVxV
— Ammar Aziz (@Ammar_Aziz) September 3, 2020
سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئٹر پرفلم کے ہدایت کار عمار عزیز کا کہنا ہے کہ فلم سانحہ بلدیہ کی برسی کے موقع پر کراچی میں جلی ہوئی فیکٹری کے مقام پر دکھائی جانی تھی لیکن کورونا وبا کے باعث فلم کی نمائش صورتحال بہتر ہونے تک موخر کردی گئی ہے۔
انہوں نے کہا کہ ’ڈسکاؤنٹ ورکرز‘ ایک فیچر ڈاکیومنٹری فلم ہے جس میں سعیدہ خاتون سمیت ان تمام لوگوں کی کہانی دکھائی گئی ہے جنہوں نے اپنے بچوں کو اس سانحے میں کھودیا تھا۔
اس کے علاوہ فلم میں دکھایا گیا ہے سعیدہ خاتون انصاف کے لیے کراچی کی عدالتوں سے لے کر یورپی عدالتوں اور جرمنی کے مختلف شہروں میں جدوجہد کرتی ہیں اور کپڑے کے ایک جرمن برانڈ ’کے آئی کے ‘ کےآؤٹ لیٹ کے باہر مظاہرہ کرتی ہیں-
If you are a journalist and would like to write about the film, please get in touch. It's a feature length doc and a #German–#Pakistani coproduction. #BaldiaTown #AliEnterprise #BaldiaFactoryFire
— Ammar Aziz (@Ammar_Aziz) September 3, 2020
یاد رہے کہ آگ لگنے کا واقعہ کراچی کے علاقے بلدیہ ٹاؤن میں ایک کپڑا بنانے والی فیکٹری علی انٹرپرائزز میں 2012 میں پیش آیا تھا جہاں فیکٹری کے ملازمین جرمن برانڈ ’کے آئی کے‘ کیلئے کپڑا بنارہے تھے اس حادثے میں 260 ملازمین جھلس کر لقمہ اجل بن گئے تھے۔
جبکہ حیران کن بات یہ ہے کہ پاکستانی ریاست، جرمن برانڈ کے آئی کے اور اطالوی آڈیٹنگ کمپنی آر آئی این اے نے حادثے سے محض تین ہفتے قبل فیکٹری کو بین الاقوامی ایس اے 8000 سرٹیفیکٹ دیاتھا جس میں کام کرنے کی جگہ پر پیشہ ورانہ صحت اور حفاظت کی ضمانت دی جاتی ہے۔