ماه فروری پاکستان میں ادبی گہما گہمی کا مہینہ تھا کراچی اور لاہور ادبی میلے اپنے عمومی طریقے سے منعقد کیے گئے۔ ان دو ادبی تقاریب نے ملک کے ادبی منظر نامے میں شہرت حاصل کر لی ہے ۔ان اعلی پیانے کے میلوں کے درمیان مادری زبانوں کے ادبی میلے کا ایک قابل ذکر آغاز ہوا۔ یہ اپنی قسم کا پہلا میلہ تھا، وفاقی دار لحکومت میں منعقدہ اس میلے میں متفرق افراد نے ملک کے ہر کونے سے بڑی تعداد میں شرکت کی اور اپنی زبان و ثقافت سے آراستہ ومزین کیا۔
مادری زبانوں کے میلے میں ملک بھر کے طول و عرض کی مختلف زبانوں کے مصنفین، شاعروں، گلوکاروں اور شائقین نے شرکت کی۔ ایک سو پچاس سے زائد لکھاریوں نے چوبیس ادبی مزاکروں میں بارہ سے زائد زبانوں میں ہونے والے ادبی کام کے حوالے سے اپنے خیالات کا اظہار کیا۔ مادری زبانوں کا مشاعرہ اور مختلف زبانوں کی شام موسیقی کی شاندار پرفارمنس میلے کے رنگارنگ پروگرام اور دلچسپیاں تھیں۔
یہ میلہ انڈس کلچرل فورم نامی ایک نئی تنظیم نے پاکستان ریڈنگ پروجیکٹ، لوک ورثہ اور ادارہ استحکام شرکتی ترقی کے تعاون سے منعقد کیا۔ لوک ورثہ نے میلے کے لیے اپنی پر فضا جگہ فراہم کی جہاں رنگارنگ ثقافتوں اور ثقافتی تنوع کا جشن منایا گیا۔
میلے کے ادبی سیشن اور پر فارمنس صرف بڑی زبانوں اردو، پنجابی، پشتو، سندھی، سرائیکی بلوچی، تک محدود نہیں تھے بلکہ ان میں براہوی، پہاڑی، چترالی، بروشسکی، شینا،کشمیری، وخی، توروالی بلتی، گوجری، دری، ہزارگی، ہندکو اور پوٹھوہاری کو بھی خاطر خواہ شمولیت دی گئی تھی۔ متنوع ثقافوں کے اس اجتماع سے ایک سیاسی پیغام بھی واضح ہو کر سامنے آیا کہ طویل عرصے سے اگرچہ بیدخل نہیں کئے گئے تاہم نظر انداز کی گئی ملکی ثقافتیں اور زبانیں ملک کے سیاسی و ثقافتی منظر نامے میں اپنے حقوق اور جائز حصہ مانگ رہی ہیں۔
میلے کی تقریبات اقوام متحدہ کے مادری زبانوں کے عالمی دن کے ساتھ منعقد کی گئیں۔ لاکھوں پاکستانیوں کی مادری زبانیں جن کو اکثر ” مقامی زبانوں ” کے نام سے پکار کر ان کی حیثیت کم کی جاتی ہے، اپنے اندر علم و دانش اور تخلیق کے بے بہا اور بے مثل خزانے رکھتی ہیں۔
اپنے وجود کی سات دہائیوں کے بعد بھی ملک نے تاحال ان زبانوں کو قومی زبانیں تسلیم نہیں کیا ہے، اور اس کی وجہ ایک خود ساختہ حب الوطنی کا راگ الاپنے والے اس عمل کو قومیت کی فریبی نعرے کے خلاف قرار دیتے ہیں۔ ان میں سے کچھ نے سازشی نظریات پیش کرنے کے فن میں مہارت حاصل کر لی ہے اور یقین مستحکم رکھتے ہیں کہ ایک سے زائد قومی زبانیں قومی کجہتی کے لیے نقصان دہ ہوں گی۔ حس پر مبنی اس افسانوی بات نے لاکھوں افراد کی آنکھوں میں دھول جھونکی ہے۔
ترقی یافتہ دنیا، ثقافتی تنوع کا احترام کرتے ہیں اور اس کے وسیع ثبوت پیش کرتے ہیں اور ان کو فروغ دیتے ہیں جو متنوع معاشرے میں مختلف گروہوں کے مختلف افراد کے درمیان جڑت پہنچاتا ہے پیدا کرتے ہیں۔ اس کے بر عکس، یک ثقافتی اقدار کو فروغ دینا سماجی ہم آہنگی کے عمل کو نقصان پہنچانا ہے
مختلف قوموں کی فیڈریشن میں ان سب کو ایک زبان اور ثقافت کے ساتھ زبردستی جوڑ نے سے متحد نہیں کیا جاسکتا۔ ایک مصنوعی قوم کی ترویج کا تجر بہ 1971 میں تباہ کن نتیجے کی شکل میں سامنے آیا۔ عمومی خیال یہی ہے کہ مشرقی پاکستان کی علیحدگی کے پیچ 1948ءاس وقت بوۓ گئے جب نوزائیدہ مملکت میں بنگالی زبان کو قومی زبانوں کے طور پر رائج کرنے کے حق کو مسترد کر دیا گیا۔
کچھ تنگ نظر سیاسی عناصر یہ سمجھتے ہیں کہ چونکہ پاکستان کی بنیاد دو قومی نظریے پر رکھی گئی اس لیے سرکاری حکم ناموں کے ذریعے ایک متحد قوم بھی بنائی جاسکتی ہے ۔ قومیت کو ریاستی امور کے بجاۓ ذاتی معاملے کے طور پر جانچا جانے لگا۔ یہ مفروضہ بنایا گیا کہ قومیں، جن کی شناخت اور ورثہ ہزاریوں میں تشکیل پایا، ایک رات بھر اپنا تشخص پس پشت ڈال کر ایک نئی بنائی گئی شناخت اختیار کر لیں گی۔ کسی بھی سرکاری حکم نامے پر اعتراض یا اس کی تعمیل سے انکار کو غداری اور حب الوطنی کے خلاف قرار دے دیا گیا، یہ سب نا صرف غیر حقیقی تھا بلکہ ناجائز حد تک غیر منصفانہ بھی تھا۔ اسی باعث اس کا بھیانک نتیجہ نکلنا یقینی تھا۔ ۱۹۷۱ میں اس دیوانگی کے انجام نے ہر ایک کو حیران و پریشان کر دیا۔
حقائق سے انکار ہمارا قومی رویہ ہے جس نے ہمیشہ ہم کو تاریخ سے سکھنے سے محروم رکھا ہے۔ اور ماضی کی غلطیاں دھرانے کے سزاوار ہوتے ہیں۔ ایک راس جانچ کی شدید اور فوری ضرورت ہے جس میں پہلے ہی بہت تاخیر ہو چکی ہے
ہمارے سفر کا راستہ اس کے آغاز سے ہی غلط سمت میں اختیار کیا گیا۔ ثقافتی طور پر متنوع اور سیاسی طور پر مختلف اداروں کو ایک دوسرے کے ساتھ ملانے کے لئے اسلام اور اردو کو جڑت کے عناصر کے طور پر استعمال کیا گیا انتظام اور وجوہات سے قطع نظر سندھ اور بنگال کے لئے سکولوں عدالتوں وصول دین اور دیگر سرکاری معاملات میں دھائیوں سے رائج تھیں۔
بنگال اور سندھ میں زبان کی نقل و حرکت کے نتیجے میں دونوں صوبوں میں قوم پرست تحریکوں کی تقسیم کے نتیجے میں۔ غیر مطلوب حکمرانی شعار اردو نے پاکستانی قوم پرستی کے ٹائل کا نشان لگایا اور اس طرح ملک میں دیگر قوموں کی دوسری زبانوں کے خلاف اسے گھیر لیا۔
اگر چہار دو مختلف لسانی قومیتوں اور علاقوں کے درمیان رابطے کی زبان کے طور اپنی صلاحیت رکھتی تھی، یہ تنازعے کا مرکز اور پاکستان کے آبادی کی زیادہ تر آبادی پر عائد ثقافتی حاکمیت کی ایک علامت بنادی گئی۔ جب اقتدار کے مراکز نے اردو کو پاکستان کی وسیع آبادی پر ثقافتی یک رنگی کی علامت کے طور پر تھوپا تو اس نے پورے ملک میں اردو کے خلاف ایک غیر ضروری کے جذبے کو ہوادی اور قوم پرستی ایک رد عمل کے طور پر سامنے آئی کہ وہ ریاست میں اپنا حصہ دوبارہ لینے کے لئے ایک نقطہ نظر اپناۓ۔
دنیا میں متعدد ممالک ہیں جہاں ایک سے زائد زبان کو قومی اور سرکاری زبان کی حیثیت سے تسلیم کیا گیا ہے اور ان کی قومی سالمیت کو بھی خطرہ لاحق نہیں ہوا۔ کچھ ایسی مثالیں یہاں بیان کی گئی ہیں۔ عربی اور بربر الجزائر کی قومی زبانیں ہیں فن لینڈ میں دو قومی زبانیں ہیں۔ فینیش اور سویڈش۔ پڑوسی بھارت میں 23 قومی زبانیں ہیں۔ نائجیریا نے تین اکثریتی یا قومی زبانوں کو تسلیم کیا۔ ہوسا، اگبو، اور یوروبا۔ سنگا پور میں چار چار سرکاری زبانیں ہیں۔ انگریزی، چینی، ارٹی اور تامل۔ جنوبی افریقہ میں 11 قومی اور سرکاری زبانیں ہیں۔ سوئٹزرلینڈ میں جرمن، فرانسیسی، اطالوی اور رومانش سمیت چار قومی زبانیں ہیں۔ ہانگ کانگ میں انگریزی اور چینی سرکاری زبانیں ہیں۔ سری لنکا میں سنہالا اور تمل سرکاری زبانیں ہیں۔ ان ممالک میں سے پاکستان کی مادری زبانوں کا ادب کوئی بھی ایک سے زیادہ قومی زبانوں کی وجہ سے سیاسی اور قومی سالمیت کو خطرہ محسوس نہیں کرتا۔ ان میں سے کچھ ہم سے کہیں زیادہ مستحکم اور بہتر مر بوط ہیں۔
تقریباً سات دہائیوں کے بعد ایک زبان کے ساتھ مخاصمت اب بھی موجود ہے اور باقی ماندہ اتحاد کے پارہ پارہ ہونے تک جاری رہے گی۔ دو سال قبل قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے قانون اور انصاف نے پاکستان کی زبانوں کی حیثیت کے حوالے سے ایک بل کور دکر دیا۔
پاکستان مسلم لیگ ن کی قانون ساز ماروی میمن نے پیش کیا تھا۔ صرف چند مہینے قبل ہی قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے اطلاعات و نشریات اور قومی ورثہ نے ایک قرار داد منظور کی جس میں پاکستان کی 13 زبانوں کو قومی زبانوں کادرجہ دیا گیا ہے۔ اس اجلاس کے کچھ شرکاء نے اس کوشش کو پاکستانی قوم کو باٹنے کی کوشش قرار دیا ان کی تخیل کی پیداوار ہے۔
ملک کو دہشت گردی اور سیاسی انتشار کا نتیج در پیش ہے ایسے موقع پر زبانوں اور ثقافتوں کی کثرت و امتزاج کے ذریعے ہمدردی اور اتفاق رائے کے ایک موقع کے طور پر استعمال کیا جاسکتا ہے۔ لوگوں کی تاریخی شناخت کو تسلیم کر کے ان کے مابین رابطے بہتر بنائے جا سکتے ہیں اور اس سے عوام اور ریاست کے درمیان مستقل پل کا کام لیا جاسکتا ہے۔
ایک کثیر ثقافتی اور لسانی معاشرے کو ثقافتی طور پر حساس پالیسی کے ماحول کی ضرورت ہے۔ قوم کی تعمیر ایک نامیاتی عمل ہے جو سرکاری اعلامیے کے ذریعے تیز نہیں کیا جاسکتا اور باقی سب زبانوں اور ثقافتوں کے بدلے ایک زبان اور ثقافت کی ترویج میں کرنا ممکن ہے۔ ایک مذہب اور ایک زبان کے ذریعے ملک و قوم کی تعمیر کا غلط نسخہ بالاخر مسئلے کو مزید پیچیدہ کرے گا۔ بالکل اسی طرح جیسے اردو زبان جو اتحاد کا عنصر ہو سکتی تھی کسی طرح نفاق کی وجہ بن گئے تمام زبانوں کو ختم کیے جانے کی کوشش کے مقابلے میں ان کا احترام اور تسلیم کیے جانے کے سیاسی اثرات کہیں بہتر نتائج دیں گے
سات دہائیوں سے یک قومی یکجہتی پر مبنی مصنوعی عقیدے نے ملک کو انتہاپسندی کی دلدل میں و تھکیل دیا ہے۔ ایک زبان اور ایک قوم کے نعروں نے لوگوں کے درمیان نہ صرف نفاق پیدا کیا ہے بلکہ ہر قسم کی نفرت بھی پروان چڑھی ہے۔ ثقافتوں کے تنوع کا جشن منانا اور ان کو مرکزی دھارے میں شامل کرنا دہشت گردی اور انتہا پسندی کے خلاف ایک متبادل بیانیے کے طور پر اپنایا جاسکتا ہے۔
قدیم زبانوں کے لوک ادب، امن، محبت اور ہم آہنگی کے پیغامات سے بھرپور ہیں۔ انسانیت ان ثقافتوں کی بنیاد ہے، عوامی ثقافتوں کی بحالی اور ترویج ہماری آئینی اور پالیسی سازی کی مشینری کو معاشرے کے ثقافتی تنوع کے ساتھ دوبارہ ہم آہنگ کر کے درست سمت میں سفر کیا جاسکتا ہے۔
ٹوئٹر اکاؤنٹ @GoBalochistan