ہم نے بظاہر سیاسی آزادی حاصل کر لی لیکن سرمایہ داری اور جاگیر داری کی گرفت سے آج بھی آزاد نہیں ہو سکے ان طبقوں کے گروہی مفادات کے سائے، سب سے لمبے ہیں اور ان کے اثرات سے ہماری زندگی کا کوئی شعبہ باہر نہیں ہے۔ یوں تو پاکستان کی سیاسی اور اقتصادی زندگی شروع سے عصر حاضر کے نیو آبادیاتی نظام کے نمایندوں کے شکنجے میں جکڑرہی ہے۔ لیکن اس نظام میں سرمایہ داروں اور جاگیر داروں کے سیاسی وہ اقتصادی غلبے کو جو استحقام اس دور میں نصیب ہوا ہے اسکا مثال نہیں ملتی ۔ اس نظام میں غریب کا استحصال تو ہو سکتا ہے۔ غربت دور کرنے کے لئے۔ زكوات کا نعرہ بھی لگایا جا سکتا ہے۔ غریب کے کندھے پر اپنی سر پرستی اور لطف وہ کرم کی چادر بھی ڈالی جا سکتی ہے۔ روٹی کپڑا مکان کا نعرہ بھی لگایا جا سکتا ہے۔ جگہ جگہ غریبوں کے لئے پناہ گاہیں اور لنگر کھانے بھی کھولیں جا سکتے ہے۔
لیکن غریب کو برابر کے انسان کے طور پر Own نہیں کیا جاسکتا ۔ اور اگر کہیں کوئی غریب برابر کی سطح پر بیٹھا نظر آتا ہے تو دراصل انہی وڈیروں اور سرمایہ داروں کے نوکر کے طور پر ۔
اس نظام کے آئین میں قرآن وہ سنت کی بلادستی کی بات تو کی جاسكتی ہے اور فیڈرل شریعت کورٹ کا دایرہ بھی واسع کیا جا سکتا ہے لیکن اسلام کے نظام عدل وہ اانصاف کے ان پہلوؤں کی نافذ نہیں کیا جا سکتا ہے اور نہ ہی ایسا کوئی پروگرام دیا جا سکتا ہے جیس سے سرمایہ داری کے عالمی نظام اور اسلامی ملکوں میں اس نظام کے علم برداروں کو کوئی خطرہ لاحق ہو سکتا ہو۔ اس نظام کی گود میں پروان چڑھنے والی سينٹ اور قومی اسمبلی میں مزید ترمیم کو معرض التوا میں ڈالنے کے لئے نئی کمیٹیاں بھی بن سکتی ہیں، لیکن اس ملک کے جاگیرداروں، خانزادوں، وڈیروں اور سرداروں سے ان کے انگریز آقاؤں کی عطا کردہ اجارہ دریاں چھين کر انہيں وطن عزیز کا عام شہری بنانا ممکن ہی نہیں ہے۔
ہر دور میں ہر نیا بننے والا وزیر اعظم ہو یا صدر بشمول عمران خان اکثر قوم کو آئینوں کے ٹوٹنے کی کہانی سناتے رہتے ہیں اور آئینی اصطلاحات کے حوالے سے بلند وہ بھنگ دعوے کرتے نظر اتے مگر اس فریب خوردہ قوم کو وہ بات کوئی نہیں بتاتا جو قوم کے دل میں ہے یعنی پاکستان کا کا ہر آئين اس لئے ٹوٹا اور ہر سیاسی بحران اسلیے پیدا ہوا کہ شخص واحد نے اپنی کرسی چھوڑ نے یا اپنے اختیارات میں کمی کرنے سے انکار کر دیا۔ 1954 میں اسمبلی اسلیے ٹوٹا تھا جب غلام محمد نے اپنے اختیارات میں کمی قبول کرنے سے انکار کر دیا تھا۔
اور 1956 کا آئین اسلیے ٹوٹا کہ سکندر مرزا اور دوسرے اس آئین کے تحت انتخابات کے بعد اختیارات اور عہدے سے محروم نہیں ہونا چاہتے تھے ۔ 62 کا آیئن اسلے ختم ہوا کہ حکومت اور اقتدار کے تمام راستے ایک ہی شخص کی طرف جاتے تھے۔ 73 کا متفقہ اور عوامی آیئن انے والے مارشل لاء کو اسلیے نہ روک سکا کہ اس ایئن کے خالق نے اپنے ہی ایئن سے بھی آگے بڑھ کر اختیارات حاصل کرنے کی کوشش کی اور یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ 73 کا آیئن آج اپنی اصلی شکل و صورت میں باقی نہیں رہا۔ پاکستان کا آئین ہمیشہ سے صدر اور وزیر اعظم کے اختیارات کی وجہ سے ترمیم کی ضد میں رہا۔
یہ بات ہم سب جانتے ہیں کہ پاکستان کے مختلف آینوں میں فرد واحد کی ذات میں اختیارات جمع ہو جانے سے ہی صوبائی نفرتوں کو ہوا ملتی رہی وان یونٹ کا تجربہ ناکام رہا اور ملک کو دو لخت کرنے میں ہمارے مظبوط مرکز نے بہت اہم کردار ادا کیا
اخیر کب تک اسے کمزور نظام کے تحت اس ملک کی مشینری کو چلایا جاے گا ۔
ضروری ہے اب اس آیین کے اندر اس ترامیم کئے جائے جیس میں غریب کا بھلا ہو اور اس جاگیردارانہ اور سرمایہدارانہ نظام کا خاتمہ ہو۔
ملک میں عدل وہ انصاف اور قانون کی حکمرانی ہو کسی میں ہمت ہی نہ ہو کہ اپنی ذاتی مفاد کے لئے ملک کے اندر آئینی بحران پیدا کریں۔
اس تمام طاقتوں کی حوصلہ شکینی کرنا وقت کی اشد ضرورت ہے ۔

@I_MJawed

Shares: