قمر زمان کائرہ نے سستی بجلی فراہم کرنے کا آسان حل بتا دیا

سی سی آئی میں تو صرف مردم شماری کی منظوری
0
38
Qamar Zaman Kaira

پاکستان پیپلز پارٹی کے رہنما قمر زمان کائرہ نے عوام کو سستی بجلی فراہم کرنے کا آسان حل بتا دیا ہے جبکہ انہوں نے کہا ہے کہ آج سوال یہ ہے کہ کیا حکومت کے پاس سرپلس ہے نئے نوٹ چھاپیں گے تو مہنگائی مزید بڑھ جائے گی، اگر ملک میں آئی پی پیز نہ لگے ہوتے تو کیسے بجلی پیدا ہوتی ہے۔

جبکہ ان کا کہنا تھا کہ ہم نے تو اس وقت کہا تھا کہ پاکستان کے اندر تیل سے نہیں کوئلے کے ذریعے بجلی پیدا ہونی چاہئے ہماری پالیسی کی مخالفت کی گئی، کوئلے کے ذریعے بجلی سستی بن سکتی، ضیا اور مشرف کے دور کے بعد ملک میں بجلی کے کوئی کارخانے نہیں لگے ہیں۔
مزید یہ بھی پڑھیں؛
عمران کی رہائی کا خواب ادھورا، نیا کٹا کھل گیا،ستمبر میں نیا بھونچال
ملک میں روپے کے مقابلے امریکی کرنسی کی قیمت میں بھی اضافے کا سلسلہ جاری مہنگائی کے باعث نوجوانوں کی خودکشی، ایک جاں بحق دوسرا شدید زخمی

تاہم رہنما پیپلز پارٹی کا مزید کہنا تھا کہ سی سی آئی میں تو صرف مردم شماری کی منظوری تھی الیکشن کے التوا کا مسئلہ نہیں تھا، نوے روز میں الیکشن ہونے چاہئیں جبکہ خیال رہے کہ آئے روز بڑھتی مہنگائی کے علاوہ پاکستانی عوام کا سب سے بڑا مسئلہ بجلی کے بلوں میں شدید اضافہ ہے۔ ’آمدنی اٹھنی خرچہ روپیہ‘ کی عملی تفسیر بنے عوام یہ تو جانتے ہیں کہ ان کے زیر استعمال بجلی کے فی یونٹ کی قیمت کیا ہے لیکن خال خال کو ہی اس بات کا علم ہوگا کہ اس ’بل‘ کی مد میں ان سے کون کون سے ٹیکس لیے جارہے ہیں۔

بجلی کے بل کا تعین صارف کے استعمال شدہ یونٹس کی بنیاد پرکیا جاتا ہے یعنی جتنے یونٹ استعمال کریں گے اتنا ہی لمبا چوڑا بل آئے گا جبکہ اس کے علاوہ بجلی کے بل کا ایک حصہ بجلی فراہم کرنے والی کمپنی کو وجب الادا رقم ہوتی ہے ، دوسرا براہ راست حکومتی محصولات ہیں جوصارف سے وصول کیے جاتے ہیں۔

اس کے علاوہ فیول پرائس ایڈجسٹمنٹ بھی ہے جو بجلی پیدا کرنے کے ذرائع مثلاً کوئلہ، فرنس آئل یا گیس کی لاگت پرمنحصرہوتی ہے۔ اس کا تخمینہ ہرماہ لگائے جانے کے بعد رقم صارف سے وصول کی جاتی ہے، اس ایڈجسٹمنٹ میں روپے کی قدربھی بڑی اہمیت رکھتی ہے جو دن بدن گھٹتی چلی جارہی ہے جبکہ فیول پرائس ایڈجسٹمنٹ کے علاوہ گردشی قرضہ کم کرنے کیلئے ’فنانسنگ کاسٹ سرچارج‘ کی مد میں فی یونٹ 43 پیسے صارفین وصول کیے جاتے ہیں۔

علاوہ ازیں کراچی کے صارفین کو بتاتے چلیں کہ کے الیکٹرک یہ رقم ’پی ایچ ایل ہولڈنگ‘ کے نام پروصول کرتی ہے، اس طرح سے کوارٹرلی (ہر3 ماہ بعد )ٹیرف ایڈجسٹمنٹ یا ڈی ایم سی کی مد میں صارفین کی جیب پر مزید ڈاکا اس وقت ڈالا جاتا ہے جب حکومت بجلی کی قیمت میں رد و بدل کرے۔

مزید چند اخراجات یا ٹیکس براہ راست حکومت عائد کرتی ہے جن کا بجلی فراہم کرنے والی کمپنی سے براہ راست تعلق نہیں ہوتا۔ مثلاً بجلی بل میں سب سے زیادہ ٹیکس 18 فیصد ٹیکس جنرل سیلزٹیکس(جی ایس ٹی) کی مد میں وصول کیاجاتا ہے، یہ بات بھی اہم ہے کہ اگر صارف ٹیکس فائلرنہیں ہے تو پھربجلی بل میں انکم پر بھی ٹیکس عائد کیا جائے گا جبکہ واضح رہے کہ انکم ٹیکس 25 ہزار روپے سے زائد بل پرعائد کیا جاتا ہے جو مجموعی بل کا ساڑھے سات فیصد ہوتا ہے۔

Leave a reply