کسی معاشرے میں امن و امان کے قیام کے لیے قانون کی بالادستی لازم و ملزوم ہے ۔ اگر معاشرہ عدل و انصاف سے عاری ہو تو وہ معاشرہ مہذب معاشرہ نہیں بن سکتا۔
اگر اسلامی قوانین کا جائزہ لیا جائے تو یہ بات واضح ہے کہ اسلام میں عدل و انصاف کا بہت اہم مقام ہے اگر ہم پیارے نبی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کا مطالعہ کریں تو ہمیں عدل و انصاف کی بالادستی واضح نظر آئے گی۔

آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مقام پر فرمایا
خدا کی قسم اگر میری بیٹی فاطمہ بھی چوری کرتی تو میں اس کے ہاتھ کاٹ دیتا ۔
حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ بیان عدل و انصاف کی اہمیت کو اجاگر کرتا ہے
اب بات کرتے ہیں اسلامی جمہوریہ پاکستان کی جس کے الگ مقام کا مقصد اسلامی قوانین کا نفاذ اور اسلامی قوانین کی بالادستی ہے
لیکن افسوس اسلامی جمہوریہ پاکستان میں انصاف برائے فروخت ہے
17 جون 2014 لاہور ماڈل ٹاؤن کے مقام پر پاکستان عوامی تحریک کے سربراہ ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کی رہائش گاہ پر پنجاب پولیس کی جانب سے تجاوزات کے نام پر معصوم اور نہتے لوگوں کے خلاف آپریشن کیا گیا جس کے نتیجے میں 14 افراد شہید اور 100 سے زائد افراد زخمی ہوئے

اگر بات صرف تجاویزات کی تھی تو چودہ معصوم لوگوں کا بے گناہ قتل کرنے کا کیا مقصد؟؟
اس سانحہ کو تقریبا سات سال گزر چکے ہیں مگر آج تک سانحہ ماڈل ٹاؤن کے شہداء کے ورثا انصاف حاصل کرنے میں نا کام ہیں۔ یہ بات بھی واضح ہے کہ کوئی بھی ریاستی ادارہ اپنے ہی معصوم لوگوں پر دشمنوں کی طرح اندھا دھند گولیاں نہیں برساتا یقینا اس عمل کے لیے لیے حکومت کی طرف سے احکامات کا ملنا واضح ہے ۔ یاد رہے 2014 میں وفاق اور پنجاب میں مسلم لیگ نون کی حکومت تھی

کیا شریف برادران نہتے لوگوں سے اتنے ڈرگئے تھے کہ خادم اعلی کو قاتل اعلی بننا پڑا ۔ وزیر قانون پنجاب کو قانون کی دھجیاں اڑانی پڑیں اور وزیراعظم نواز شریف کی زبان کو تالے لگ گئے ۔
پنجاب پولیس کی جانب سے بزرگوں خواتین اور بچوں پر اندھا دھند فائرنگ کی گئی اور ان کو زخمی بھی کیا گیا مجھے یاد ہے تنزیلہ امجد کی والدہ جو کہ حاملہ تھیں وہ بھی پنجاب پولیس کی جانب سے کیے گئے مظالم میں شہید ہوئیں تنزیلہ امجد نے اپنی شہید ماں کے لیے انصاف کے حصول کے لیے عدل مہیا کرنے والے اداروں کا دروازہ کھٹکایا صرف ایک بار نہیں بار بار کھٹکایا گیا مگر خاموشی۔
افسوس ہے اس نظام پہ کہ جہاں غریب کے لیے سزا اور امیر کے لیے معافی
ایک تو انصاف فوری مہیا حاصل نہیں ہوتا اگر حاصل ہو بھی جائے تو غریب کی جیب کے برداشت سے باہر کی بات ہے جہاں سابقہ وزیر اعظم کی بیٹی کی درخواست پر چھٹی والے دن عدالت لگ جاتی ہے اور وہاں دوسری طرف قوم کی بیٹی تنزیلہ انصاف کی راہ دیکھتی رہ جاتی ہے اگر مریم نواز قوم کی بیٹی ہے تو کیا تنزیلہ قوم کی بیٹی نہیں ؟؟
کیا قوم کی بیٹی کا اعزاز حاصل کرنے کے لیے والد کا وزیراعظم اور چچا کا وزیراعلیٰ ہونا ضروری ہے

یہاں انصاف بکتا ہے یہاں فرمان بکتے ہیں
زرا تم دام تو بدلو یہاں ایمان بکتے ہیں

اگر کوئی سچ میں حقیقی تبدیلی چاہتا ہے تو اس کےلیے ضروری ہےکہ نظام عدل کو بہتر بنایا جائے ،فوری اور سستا انصاف مہیا کیا جائے۔

Shares: