سعودی عرب دھماکوں سے گونچ اٹھا حکام وجہ بتانے سے کیوں گریزاں

باغی ٹی وی : سینئر اینکر پرسن مبشر لقمان نے اپنی یو ٹیوب چینل پر بات کرتے ہوئے کہا ہے کہ سعودی عرب کے دارالحکومت ریاض پر میزائل حملے ہوئے تاہم فوری طورپر اس کی وجہ معلوم نہیں ہوسکی۔ سعودی حکام نے فی الحال اس پر کوئی تبصرہ نہیں کیا ہے اور نا ہی کسی نے اس کی ذمہ داری قبول کی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ اگرچہ ابھی تک پتہ نہیں‌چل سکا کہ یہ حملے کس نے کیے ہیں لیکن لگتا یہ ہے کہ یہ یمن کے باغیوں کا کام ہو اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ اس میں کسی اور کا ہاتھ ہو.

مبشر لقمان نے بتایا کہ کل سعودی عرب کے دارلحکومت ریاض کے اوپر دو میزائل حملے ہوئےاطلاعات کے مطابق ایک ریاض کے ائر پورٹ پر حملہ ہو اہے اور یہ کنفرم خبر ہے اور دھماکے کے بعد کئی گھنٹے تک ائیر پورٹ بند رہا فلائٹس بند رہیں اور جو فلائٹس آ رہی تھیں ان کو متبادل ائیر پورٹ پر اتارا گیا اور جانے والی فلائٹس کو روک دیا گیا-

ان کے مطابق یہ اسی صورت میں ہوتا ہے جب رن وے فنکشنل نہ ہو یا مزید حملوں کے خطرات ہوں سعودی عرب کے اندر میزائل اور ڈرون حملے ایک عام سی بات ہے لیکن ریاض میں نہیں کیونکہ یمن سے ریاض کا فاصلہ تقریباً سات سو چونسٹھ میل بنتا ہے اور یہ جو حوتی باغی لوگ ہیں وہاں پر ان کے پاس لانگ رینج میزائل ویپن سسٹم نہیں ہے نہ ان کے پاس لانگ رینج میزائلز ہیں دوسری طرف یمن کے باغی لوگوں نے ان حملوں انکار کر دیا کہ یہ حملے ہم نے نہیں کئے –

سینئیر صحافی کے مطابق اب سوال یہ ہے کہ اگر یہ حملہ انہوں نے نہیں کیا تو پھر کس نے کیا ہے؟ ایک نامعلوم گروپ اٹھا اور اس نے اس حملے کی ذمہ داری قبول کی ہے اور اس گروپ کے بارے میں کسی کو نہیں پتہ نہ اس گروپ کی تشکیل کا پتہ ہے اور نہ یہ پتہ ہے کہ یہ کب وہاں پر آئے-

انہوں نے خیال ظاہر کیا کہ یہ حملہ کرایا گیا ہے اور اس لیے کرایا گیا ہے کہ سعودی عرب اس پر ردعمل دے اور کسی طرح ایران اور سعودی عرب آمنے سامنے آ جائیں دوسری جانب ایران یمن کے باغیوں کی کھل کر سپورٹ سالہا سال سے کرتا آرہا ہے پچھلے سال بھی آرامکو میں میزائل حملے میں اس سے اس ریفائنری کو بڑا نقصان ہوا تھا 2020 میں اس کی یمن باغیوں نے ذمہ داری قبول کر لی تھی لیکن وہ جدہ میں تھا-

Shares: