سیاسیی شاہ رنگیلے اور مجبور عوام تحریر ۔ محمد نثار ٹمن

0
51

محمد شاہ رنگیلا ( اصل نام روشن اختر) کا نام پوری دنیا میں جانا پہچانا جاتا ہے۔ یہ مغلیعہ دور حکومت میں بادشاہت کے رتبے پر فائز رہا، بھلے اسکا نام تو پوری دنیا میں جانا پہچانا جاتا ہے، لیکن اسکا کردار بہت ہی کم لوگ جانتے ہیں۔ شاہ رنگیلا نے اپنی مدت حکمرانی کا زیادہ تر وقت عیش و عشرت میں گزارہ ، یہ چوبیس گھنٹے نشے میں دھت اور حسن و جمال کا بے حد دلدادہ تھا۔ شاہ رنگیلا قانون سازی کرنے اور قانون شکنی کرنے کے خبط میں بھی حد درجے کا مبتلا تھا۔ یہ ایسا سر پھیرا بادشاہ تھا جو کھڑے کھڑے ہندوستان کے کسی بھی شخص کو اعلی ترین عہدہ دے دیتا تھا اور بگڑنے پر یہ کھڑے کھڑے ملک کے وزیراعظم جیسے شخص کو جیل بھیجوا دیتا تھا۔ رنگیلا اکثر دربار میں عریاں حالات میں آجاتا تھا ور درباری بھی اسکی پیروی کرتے ہوئے عریاں ہوجاتے تھے۔
رنگیلا ایسا بےہودہ بادشاہ تھا کہ اچانک حکم دے دیتا اور کہتا تھا کہ کل فلاں فلاں وزیر زنانہ کپڑے پہن کر اور فلاں فلاں وزیر پاوں میں گھنگرو پہن کر آئیں گے۔ اکثر نشے کی حالت میں یہ حکم دے دیتا تھا کہ جیلوں میں موجود تمام قیدیوں کو رہا کرکے، انکی جگہ اتنی ہی تعداد میں نئے قیدی ڈال دئیے جائیں۔ سپاہی اسکا حکم بجا لاتے ہوئے پورے شہر میں پھیل جاتے اور جہاں بھی کوئی شخص نظر آتا تھا اسکو پکڑ کر جیل میں بند کر دیتے تھے۔ شاہ رنگیلا وزارتیں تقسیم کرنے کا بے حد شوقین تھا، لیکن اکثر یہ دوسرے ہی دن جوش میں آکر وزارت واپس بھی لے لیتا تھا۔ اگر کوئی بھی اسکے حکم کے خلاف جاتا تھا تو اس پر ظلم کے پہاڑ توڑے جاتے اور طرح طرح کی ازیتیں دے دے کر اسکو قتل کروا دیتا تھا۔
جب نادر شاہ نے دہلی کو فتح کیا تو رنگیلا کو اپنے خاندانی ہیرے کوہ نور کی فکر ہونا شروع ہوگئی۔ شاہ رنگیلا کو ڈر تھا کہ اگر نادر شاہ کو ہیرے کے بارے پتہ لگ گیا تو وہ ہیرے کو حاصل کرنے کےلیے ہر کوشش کرئے گا، اسلیے رنگیلا نے اپنا خاندانی ہیرا اپنی پگڑی میں چھپا لیا۔ نادر شاہ کو اپنے مخبر کے زریعے اس بات کا علم ہوچکا تھا، اسلیے رنگیلا سے ملاقات کے وقت اسکے ساتھ شاہی تخت پر بیٹھتے ہی نادر شاہ نے کہا کہ ” جسطرح عورتیں اپنے دوپٹے بدل کر آپس میں بہنیں بن جاتی ہیں، کیوں نہ ہم دونوں بھی اپنی پگڑیاں بدل کو بھائی بھائی بن جائیں”۔ اور اسطرح چالاکی سے نادر شاہ نے رنگیلا سے اسکی ہیرے والی پگڑی حاصل کرکے ، حکمرانی حاصل کرلی، اور رنگیلا اپنی نااہلیت اور کند ذہنیت کی وجہ سے حکمرانی سے ہاتھ دھو بیٹھا۔
اگر ہم 2017 کے آخر اور 2018 کے اوائل تک اپنی علاقائی سیاسیت پر نظر دوڑائیں تو سیاسیی منظر نامہ بلکل مختلف نظر آئے گا، لیکن 25 جولائی 2018 کے بعد سے لیکر تاحال سیاسیی منظر نامہ بلکل ایسا نظر آئے گا جسطرح شاہ رنگیلا کے دور حکومت میں رہا ہے۔ تحریک انصاف کی اتحادی جماعت مسلم لیگ ق نے اپنی انتخابی مہمات ، جلسے جلوسوں، ریلیوں، سیاسیی مجلسوں، میڈیا پلیٹ فارمز پر، یہاں تک کہ ہر موقعہ پر اقتدار کی کرسی حاصل کرنے کے بعد، اپنے چاہنے والوں، اپنے انسوسٹرز ، اپنے میڈیا پرسنز، فنانسسز، پارٹی کےلیے جہانگیر ترین کے کردار ادا کرنے والے افراد، شوشل ورکرز، ڈیروں پر مصنوعی مسائل والے لوگ جمع کرنے والوں، پروٹوکول پارٹیز دینے والے شاہینوں، علاقائی ینگسٹرز ، اور فوٹو سیشن لینے والے فوٹو گرافرز کےلیے اقتدار میں آتے ہیں مخصوص نوکریاں، ملازمتیں، اور ہر طرح کی مالی ، سماجی اور معاشرتی مدد کا یقین دلوایا ہوا تھا۔ پاکستان کی بڑی سیاسیی جماعتوں کیطرح مسلم لیگ ق کے نظریاتی ورکرز، آٹے میں نمک کے برابر ہی ہونگے، جبکہ باقی تمام ووٹرز ، نصف صدی سے چلے آرہے ملکائی، وڈیرہ شاہی، سرداری نظام اور موررثی / خاندانی سیاستدانوں سے جان چھوڑوانے کےلیے ق لیگ کو سپورٹ کیا تھا۔
جولائی 2018 ، تیسری کوشش کے نتیجے میں مسلم لیگ ق کو حلقہ NA 65 اور PP 24 میں مددگار اتحادیوں کے ووٹ بنک اور پرویز الہی کی معاشی پالیسی کے باعث اکثریتی کامیابی ملی۔ کامیابی ملنے کے بعد مسلم لیگ ق کی قیادت میں شاہ رنگیلے والا کردار جاگ اٹھا اور تمام سیاسیی وعدوں کے ساتھ ساتھ اپنے چاہنے والوں سے راستہ جدا کرلیا۔ کیونکہ سرکاری سطح پر انکی کامیابی کا نوٹیفیکشن جاری ہوچکا تھا۔ تھوڑے سے عرصے بعد ہی شاہ رنگیلا کی طرح ق لیگ کیطرف سے منہ موڑنے پر انکی پارٹی کے تمام الحاقی اور تشہیری افراد کو سخت مایوسی کا سامنا ہوا۔ اقتدار میں آنے کے بعد شاہ رنگیلا کیطرح ق لیگی قیادت نے بھی من پسند افراد کو اعلی سطح پر نوازنا شروع کردیا گیا۔ اعلی سطحی قائدین کی طرف سے انکی ہاں میں ہاں ملانے والوں کے ذریعے ہر فورم پر مزاحمتی برگیڈ کے قیام شروع کردئیے گئے۔ میڈیا پرسنز کے ذریعے اپنی تشہیر و تعریف کے پل بندھوانا شروع کروادئیے۔ اخبارات کے اندرونی صفحات سے فرنٹ صفحے پر سرخیوں میں جگہ بنوالی گئی۔ علاقائی تھانے کچری کے اندر بجائے جانبداری اور شفافیت کے، مداخلتی کردار ادا کرنا شروع ہوگئے۔ صوبائی سطح پر سئنیر پولیس آفسران کے ذریعے علاقائی تھانہ کچری سسٹم میں پنجے گاڑھنا اور مداخلت کا نظام شروع ہوگیا، من مرضی کے فیصلے اور ایف آئی آرز کا سلسلہ شروع ہوگیا۔ شاہ رنگیلا کے طرز حکمرانی کو اپناتے ہوئے، اگر انکے خلاف کسی بھی فورم پر کوئی حق سچ کہنے کی جرت کرتا تو انکے خلاف منظم انداز میں مہم چلائی جانی شروع ہوگئی، طرح طرح کے طریقہ کاروں سے انکو تنگ کیا جانے لگتا، سوشل میڈیا پر انکی کردار کشی کی جانے لگی، یہاں تک کہ لوکل پولیس کے ذریعے انکو ڈرایا دھمکا جانا بھی شروع کردیا گیا۔ اگر موجودہ سیاسیی نظام کو دیکھیں تو ایک بار پھر ہمارے اوپر شاہ رنگیلا جیسے حکمران مسلط ہوگئے ہیں، جنکے سامنے عوام مجبور اور بے بس ہوچکی ہے۔ مجبور اور بے بس عوام ابکے خلاف جانے کی جرت نہیں کرسکتی ہے، کیونکہ تھانے کچری سے لیکر اعلی ترین عدلیہ میں انکے کارندے موجود ہیں، جو انکی ہر ممکن مدد کار خیر سمجھ کر کرتے ہیں۔
قارئین حضرات !!! 1719 سے لیکر 1748 تک برسراقتدار رہنے والا شاہ رنگیلا تو اپنی بدنامیوں، عیاشیوں، بد عنوانیوں، رنگینیوں، بد اخلاقیوں اور بد زبانی کی وجہ سے اپنے اقتدار سے ہاتھ دھونے کے ساتھ ساتھ زمین بوس ہوگیا، لیکن ہمارے لوکل اور نیشنل سیاسیی نظام میں آج بھی بہت سارے ایسے سیاسیی شاہ رنگیلےبر سر اقتدار ہیں، جو رنگیلے کیطرح بدنام بھی ہیں، عیاش بھی ہیں، بد اخلاق بھی ہیں، وعدے فرموش بھی ہیں، فراڈئیے بھی ہیں، دھوکے باز بھی ہیں، چاپلوس بھی ہیں، خوش آمدی بھی ہیں، لارے لپے لگانے والے بھی ہیں،نجانے کیا کیا معاشرتی برائیوں کے ساتھ ہمارے اوپر مسلط ہیں اور نجانے کب تک رہیں گے۔ عوام کو چاہیے کہ اپنے اردگرد ایسے سیاسیی رنگیلوں کو پہچانیں، بجائے انکے ہاتھوں میں کٹھ پتلی بننے کے انکا سامنا کریں، ایسے رنگیلوں کےلیے اپنے دوستوں، رشتے داروں اور برادری والوں سے علحدگیاں اختیار مت کریں، انکی چکنی چوپڑی باتوں کو سینے سے لگاکر مت رکھیں، انکا محاسبہ کریں، ابکے ساتھ سیلفیاں بنانے کی بجائے ان سے انکی کارکردگی پر سوال کریں۔ نجانے ہمارے معاشرے میں ہر کوئی دولتمند اور طاقتور سے ہی کیوں ڈرتا ہے ؟ کیا سیاسیی یا طاقتور کو موت نہیں آنی، بلکہ ہمیں تو زیادہ ڈرنا چاہیے اس کمزور اور مجبور انسان سے جو ہر دکھ درد میں الله کی طرف دیکھتا ہے، اسکے فیصلے کا انتظار کرتا ہے۔ دعا ہے اللہ پاک یمیں ایسے سیاسیی رنگیلوں سے اپنی پناہ میں رکھے۔ آمین۔

(@_Ni_s)

Leave a reply