سیاحت میں رکاوٹ تحریر: عمران راجہ


پاکستانی سیاحت کو درپیش مسائل
‎پاکستان کے شمالی علاقے اپنی بے مثال خوبصورتی کی وجہ سے دنیا بھر میں مشہور ہیں۔ گرمیوں کا آغاز ہوتے ہی سیاحوں کی بڑی تعداد شمالی علاقہ جات کا رخ کرنا شروع کر دیتی ہے۔ لیکن گذشتہ دنوں ناران کاغان جانے والوں کو سخت پریشانی کا سامنا ہوا کیونکہ ناران کاغان روڈ پر ناجائز تجاوزات کے خلاف ہونےوالے آپریشن کی وجہ سے وہاں حالات کشیدہ ہو گئے۔ کشیدگی پر تو مقامی انتظامیہ نےجلد ہی قابو پا لیا، لیکن کیبن اور ہوٹلوں کی توڑ پھوڑ کی وجہ سے وہاں کی خوبصورتی بے حد متاثر ہوئی۔ اگرچہ شمالی علاقہ جات کی قدرتی خوبصورتی کو بحال رکھنے کے لیے یہ آپریشن ضروری تھا لیکن مناسب یہ تھا کہ اس کام کو سردیوں میں کیا جاتا جب سیاح یہاں کا رخ کم ہی کرتے ہیں۔ یا پھر یہ کام گذشتہ سال بھی کیا جا سکتا تھا جب پورا سال سیاحتی مقامات کرونا کے باعث بند رہے۔

‎گزشتہ کچھ سالوں سے دہشت گردی کی وجہ سے سیاحوں نے پاکستان کا رخ کرنا چھوڑ دیا تھا۔ لیکن آپریشن ضرب عصب اور آپریشن ردالفساد کی کامیابی کے بعد اب آہستہ آہستہ سیاحتی سرگرمیاں بحال ہونا شروع ہورہی تھیں کہ کرونا کی آمد نے شعبہ سیاحت کو ایک بار پھر بری طرح متاثر کیا۔ کرونا کے باعث نہ صرف پاکستان بلکہ پوری دنیا میں ٹورازم انڈسٹری کو ناقابل تلافی نقصان پہنچا ہے۔

‎دنیا بھر میں سیاحت کو ایک صنعت کا درجہ حاصل ہے۔ سیاحت کی بدولت نہ صرف ملکی معیشت مضبوط ہوتی ہے بلکہ مقامی افراد کے لیے روزگار اور کاروبار کے مواقع بھی پیدا ہوتے ہیں۔ لیکن بد قسمتی سے سیاحت کے لیے موزوں ترین ملک پاکستان میں سیاحت پر خاص توجہ نہیں دی جاتی۔ پاکستان کے جی ڈی پی کا صرف 7.1 فیصد سیاحت سے حاصل ہوتا ہے جبکہ دیگر ممالک میں اس کی شرح 10 فیصد ہے۔
‎پاکستان دنیا کے ان چند مقامات میں سے ایک ہے جو سیاحوں کے لیے خصوصی کشش رکھتا ہے۔ پاکستان میں اس کی بھرپور ثقافت ، جغرافیائی اور حیاتیاتی تنوع اور تاریخ کی وجہ سے سیاحت کی بھرپور صلاحیت موجود ہے۔ بلند و بالا برف پوش پہاڑی سلسلہ کوہ ہمالیہ، جہاں دنیا کی دوسری بلند ترین چوٹی کے ٹو پائی جاتی ہے، وسیع و عریض صحرا تھر اور چولستان اپنی تمام تر خوبصورتی اور اسرار لیے، سرسبز اور مسحور کن وادیاں جن میں وادئ نیلم، ہنزہ، کالاش، ناران کاغان شامل ہیں، تاریخی مقامات جیسے قلعہ روہتاس، شاہی قلعہ لاہور، شالامار باغ بادشاہی مسجد اور مسجد وزیر خان، صدیوں پرانی تہذیب کی نشانیاں ٹیکسلا، موہنجو دڑو اور ہڑپہ، مختلف مذاہب کے اہم مذہبی مقامات، اس کے علاوہ پاکستانی ثقافت جو کہ کراچی سے لے کر خیبر تک ہر طرح کے رنگ لیے ہوئے ہے، یہ سب چیزیں مل کر سیاحوں کے لئے بے پناہ کشش کا سامان پیدا کرتی ہیں۔ یہاں کے مقامی تہوار شندور کا میلہ، پولو فیسٹیول، مالم جبہ میں ہونے والا ski tournament اور اسی طرح کی دوسری سرگرمیاں سیاحوں کے لیے خصوصی دلچسپی رکھتی ہیں۔
‎پاکستان میں سیاحت کا شعبہ ابتدا سے ہی عدم توجہ کا شکار رہا ہے۔سیاحت کے شعبے کی زبوں حالی کی بہت سی وجوہات ہیں۔ ٹوٹی پھوٹی سڑکیں، غیر معیاری ریستوران ، صفائی کا ناقص انتظام اور ناکافی سہولیات اندرون اور بیرون ملک سے آنے والے سیاحوں کی راہ میں رکاوٹ ہیں۔ تاریخی عمارات جو کہ آرٹ کا بہترین شاہکار ہیں انتہائی خستہ حال ہوتی جا رہی ہیں۔ ٹرانسپورٹ کی ناقص سہولیات کی وجہ سے آئے دن حادثات پیش آتے رہتے ہیں۔ اس کے علاوہ گزشتہ کچھ سالوں سے پاکستان بدترین دہشت گردی کا شکار رہا۔ میڈیا خاص طور پر بھارتی میڈیا نے پاکستان کے خلاف پروپیگنڈہ کر کے دنیا بھر کے سیاحوں کے قدم روک دیے۔

‎موجودہ حکومت سیاحت کی اہمیت کو سمجھتے ہوئے اس شعبہ پر خصوصی توجہ دے رہی ہے۔کرتار پور راہداری اس سلسلے میں ایک اہم قدم ہے۔ جس کی بدولت سکھ زائرین کے ساتھ ساتھ دوسرے سیاح بھی بڑی تعداد میں پاکستان کا رخ کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ پاکستان میں سیاحت کی وسعت اور فروغ دینے کے لیے حکومت کی جانب سے ایک نیا ویزا سسٹم متعارف کروانے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ جس کے تحت پاکستانی حکومت 175 ممالک کو 7 سے 10 کاروباری دنوں کی مدت میں تین ماہ کا ای ویزا فراہم کرے گی اور 50 ممالک کو پاکستان آمد پر ویزا کی پیش کش کی گئی ہے۔ سی پیک کا منصوبہ ایک اہم پیشرفت ہے جو نہ صرف روزگار کے مواقع پیدا کرے گا بلکہ اس سے سیاحت کو بھی فروغ حاصل ہوگا۔

‎یوریشین ٹائمز میگزین کے مطابق پاکستان کو 2020 میں تعطیلات کے لیے بہترین مقام قرار دیا گیا اور دنیا کا تیسرا سب سے اعلی مہم جوئی کا مقام بھی قرار دیا گیا۔ چونکہ ملک میں سیکیورٹی کے حالات بہتر ہوئےہیں، سیاحت میں بھی اضافہ ہورہا ہے۔ دو سالوں میں ملکی سیاحت میں 300 فیصد سے زیادہ کا اضافہ ہوا ہے۔ ملک میں ٹریول ولاگرز کی آمد ہوئی ، جنہوں نے ملک کی خوبصورتی کو دنیا کے سامنے پیش کیا، خاص طور پر شمالی علاقوں ہنزہ اور اسکردو۔

‎حکومتی کوششوں کے ثمرات تو نظر آنا شروع ہو گئے لیکن حکومت کے ساتھ ساتھ میڈیا کو بھی مثبت کردار ادا کرنا چاہیے۔ میڈیا پر اکثر اوقات سنسنی پھیلانے کے لیے ایسی خبریں نشر کی جاتی ہیں کہ سیاحوں پر مقامی افراد نے حملہ کر دیا یا ان کو اغواء کر لیا ۔ ایسی خبریں نہ صرف ملک کی بدنامی کا باعث بنتی ہیں بلکہ بیرون ملک یہ تاثر پیدا ہوتا ہے کہ پاکستان ایک غیر محفوظ مقام ہے۔ حالانکہ حقیقت اس کے برعکس ہے۔ سیاحت کو فروغ دینے میں میڈیا سب سے اہم کردار ادا کر سکتا ہے۔ بے مقصد پروگراموں کی بجائے پاکستان کی ثقافت اور سیاحت کو فروغ دینے کے لیے دستاویزی پروگرام پیش کیے جائیں۔ بلاگرز اس سلسلے میں اہم کردار ادا کر سکتے ہیں۔ یو ٹیوب پر زیادہ سے زیادہ پاکستانی علاقوں اور پاکستانی ثقافت کو اجاگر کرنے والی ویڈیو پیش کی جائیں۔ میڈیا اور سوشل میڈیا بہت اہم ہتھیار ہیں جن کا مثبت استعمال کر کے ہم بہت سے فوائد حاصل کر سکتے ہیں۔ اگر سیاحت کے شعبے پر اسی طرح توجہ دی جائے جیسے کہ گذشتہ کچھ عرصے سے دی جا رہی ہے تو اپنی متنوع خصوصیات کے باعث پاکستان دنیا کا بہترین سیاحتی ملک بن سکتا ہے اور بین الاقوامی سیاحت کو فروغ دے کر اتنا زرمبادلہ کمایا جا سکتا ہے کہ ملک کا قرضہ بھی بآسانی ادا کیا جا سکے اور ملک ترقی کی راہ پربھی گامزن ہو

۔
Imran A Raja is a freelance Journalist, columnist & photographer. He has been writing for different forums. His major areas of interest are Tourism, Pak Afro Relations and Political Affairs. Twitter: @ImranARaja1

Comments are closed.