ضروریات کی تخلیق کرنا، لوگوں کی ضروریات کی نشاندھی کرنا یا کسی بھی چیز کو لوگوں کی ضرورت بنا دینا مارکیٹنگ کہلاتا ہے۔
دورے جدید میں انسان نے بہت ترقی کی مختلف پروڈکٹ بنائیں، ان پروڈکٹ کو لوگوں میں متعارف کرنے کے لیے مارکیٹنگ کا سہارا لینا پڑا اور اس طرح وہ پروڈکٹ آج آپ کے گھروں میں موجود ہیں یا ان پروڈکٹ کا آپ کی زندگیوں سے گہرا تعلق ہے، چاہے آپ ان پروڈکٹ کو خرید پائن یا خریدنے کی خواہش کریں۔
مارکیٹنگ کا علم رکھنے کے دعوےدار اتھیکل مارکیٹنگ پر یقین رکھنے کا درس دیتے ہیں، سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ مارکیٹنگ میں ایتھکس یا ایتھیکل مارکیٹنگ بھی کسی چیز کا نام ہے؟
یقینا نہیں, مارکیٹنگ اور ایتھیکس دو الگ الگ چیزوں کے نام ہیں، ماہرین نے مارکیٹنگ کا استعمال کرتے ہوئے اپنے پروڈکٹ کو کنزیومر کے دماغ میں ایسے پوزیشن کیا کہ وہ انہیں اپنے فائدے میں اور اپنے اسٹیٹس کو بڑھانے کے لیے استعمال کرنے لگے۔ اسی طرح کوئی بھی برینڈ یہ نہیں چاہتا کہ اس کی پروڈکٹ اس کے مدمقابل سے کم بکے، اس لیے وہ ہر راستہ اپناتا ہے جس سے وہ اپنے مدمقابل پروڈکٹس کو ڈیمج کرسکے تاکہ لوگ اس کے مدمقابل کو چھوڑ کر اس کے برینڈ کو اپنا سکیں، یہ سب وہ غیر اخلاقی مارکیٹنگ سے ہی حاصل کرسکتا ہے، تو کیا اب ہم غیر اخلاقی طریقہ کار پر مارکیٹ ہوئی پراڈکٹ کے اوپر بھی اعتبار کرنا شروع کر دیں؟
ففتھ جنریشن وار فیئر کے دوران سیاست میں لوگوں کو مارکیٹ کرنا شروع کیا گیا، جیسے کہ ڈونلڈ ٹرمپ، مودی، عمران خان, وغیرہ وغیرہ۔
ایک ایسا مارکیٹنگ پلان جس میں ہزاروں لوگوں کے سوشل میڈیا سیل بنائے گئے ٹی وی شوز کے پرائم ٹائم پر عمران خان کو بٹھایا گیا وہ سوالات پوچھے گئے جو پرائم منسٹر شپ کے کینڈیڈیٹ سے پوچھے جاتے ہیں، پاکستان کے بڑے میڈیا چینلز کے اینکرز،انفلوئنسرز کو انگیج کیا گیا۔ پاکستان کے بڑے ٹی وی چینلز کا میڈیا ٹائم خریدا گیا، مشہور گلوکاروں سے گانے بنوائے گئےاور اس کے ساتھ ساتھ سوشل میڈیا کی مدد لی گئی اور عوام میں ایک ایسا امیج بلڈ کیا جس سے انہیں لگا کہ یہی وہ آخری مسیحا اور سٹیٹس مین ہے جو کہ پاکستان کے تمام مسائل کا حل ہے۔
اس مارکیٹنگ پلان کی سب سے اہم حکمت عملی عمران خان کو نواز شریف کے مخالف اسٹیبلش کرنا تھا، جس میں پاکستان کے بہترین دماغوں نے بیٹھ کر نواز شریف کے خلاف کمپین تیار کی اور نواز شریف کو چور اور کرپٹ اسٹیبلش کر دیا۔
عوام سے مارکیٹنگ سٹریٹجی کے طور پر اوور کمینٹس کی گئیں، جیسے کہ پچاس لاکھ گھر، ایک کروڑ نوکریاں، پاکستان کے قرضے اتارنا، آئی ایم ایف کے آگے ہاتھ مت پھیلانا، بیرون ملک سے لوگ پاکستان نوکریاں لینے آئیں گے۔
ناممکن چیزوں کو بغیر ایگزیکیوشن پلان کے ممکن کرنا مارکیٹنگ کا ہی تو ایک کمال ہے، جس کو ایتھیکل(اخلاقی) مارکیٹنگ کہاجا رہا ہے۔
مارکیٹنگ کی ایک قسم جس کو برینڈ پوزیشنگ کہتے ہیں، جس کی مدد سے خاص ماہرین نے عمران خان کو پاکستان کی تقدیر بدلنے والے مسیحا کی پوزیشن میں لا کھڑا کیا۔ "آپ کی شلوار گیلی ہو جائیں گی” جیسے غیر اخلاقی الفاظ بھی عمران خان کے سپورٹرز کو اچھے لگنے لگے۔
اس سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ مارکیٹنگ کی مدد سے عمران خان کا ایسا امیج عوام کے دماغ میں پوزیشن کیا گیا، جس سے ان کی غیر اخلاقی باتیں بھی عوام کو اخلاقی لگنے لگی۔
کچھ لوگ عمران خان کو پہلے سے ہی بنا ہوا بہت بڑا اسٹیبلش برینڈ کہتے تھے، مگر سیاسی مثبت امیج بنانے کے لیے، غیر اخلاقی مارکیٹنگ کا سہارا لینا پڑا، (مارکیٹنگ کو مارکیٹ کرنے کے لئے مارکیٹنگ کی ہی ضرورت پڑی)۔
مارکیٹنگ ایک ایسا فن ہے جو غیر اہم کو اہم بنا دیتا ہے۔
اس لئے مارکیٹنگ کو اپنی زندگی کا اہم ستون بنائیں اور اس دنیا میں عجوبے پیدا کریں۔