یہ سائنسدان مینڈکوں کی آواز کی اتنی مہارت سے نقل کرتے ہیں کہ خود مینڈک بھی دھوکا کھا جاتے ہیں

سڈنی: آسٹریلیا کی یونیورسٹی آف نیوکاسل میں ایک 70 سالہ سینئر سائنسدان پروفیسر مائیکل ماہونی ہیں جو مینڈکوں سے باتیں کرنے کےلیے انہی کی طرح ’’ٹر ٹر‘‘ کرتے ہیں ۔

باغی ٹی وی : غیر ملکی خبر رساں ادارے "رائٹرز” کے مطابق آسٹریلیا کی یونیورسٹی آف نیوکاسل میں ایک 70 سالہ سینئر سائنسدان پروفیسر مائیکل ماہونی نے مینڈکوں کی طرح ٹرانےمیں مہارت حاصل کی ہے وہ مینڈکوں کی آوازوں کی اتنی مہارت سے نقل کرتے ہیں کہ خود مینڈک بھی دھوکا کھا جاتے ہیں اور ٹرّا کر انہیں جواب دینے پر مجبور ہوجاتے ہیں اور جب مینڈک ٹرّا کر انہیں جواب دیتے ہیں تو وہ بہت خوش ہوتے ہیں۔

پروفیسرمائیکل ماہونی نے”رائٹرز” کو بتایا کہ جب وہ مینڈکوں کو پکارتے ہیں اور انہیں جواب ملتا ہے تو انہیں خوشی ہوتی ہے لیکن مجھے خدشہ ہے کہ کہیں یہ مینڈک خاموش نہ ہوجائیں-

5 سال تک بارودی سرنگیں تلاش کرنے والا چوہا ملازمت سے ریٹائر

ان کا کہنا تھا کہ آسٹریلیا میں مینڈکوں کی 240 انواع پائی جاتی ہیں مگر ان میں سے تقریباً 30 فیصد کی بقاء کو ماحولیاتی تبدیلیوں، بیماریوں، قدرتی پناہ گاہوں کی تباہی،سائٹرائڈ فنگس اور پانی کی بھیانک آلودگی سے شدید خطرہ لاحق ہے ماہونی نے کہا کہ عالمی سطح پر تمام خطوں میں ورٹیبریٹس میں سب سے زیادہ خطرہ مینڈکوں کو ہے۔

70 سالہ پروفیسر ماہونی اپنے طویل کیریئر میں مینڈکوں کی 15 انواع بھی دریافت کرچکے ہیں۔ جبکہ انہوں نے مینڈکوں کی کچھ انواع کو ناپید ہوتے بھی دیکھا ہے-

سائنسدانوں کا زمین پر سمندر سے بھی بڑی جھیل دریافت کرنے کا انکشاف

ماہونی نے کہا ، "شاید میرے کیریئر کا سب سے افسوسناک حصہ یہ ہے کہ ایک نوجوان کی حیثیت سے ، میں نے ایک مینڈک کو دریافت کیا اور اس کے دو سال کے اندر ہی پتہ چلا کہ مینڈک ناپید ہو گیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ "میں نے اپنے کیریئر کے شروع میں ہی اس سے آگاہی حاصل کرلی کہ ہمارے کچھ مینڈک کتنے کمزور ہیں۔ ہمیں اپنے رہائش گاہوں کو دیکھ کر یہ پوچھنے کی ضرورت ہے کہ کیا غلط ہے۔”

انہوں نے کہا ، "ہم نے ان کے تباہ کن نقصان کے مسائل کا سامنا کرتے ہوئے جو کچھ کیا وہ آسٹریلیائی مینڈکوں کے لئے پہلا جینوم بینک قائم کرنا ہے۔”

ورلڈ وائڈ فنڈ فار نیچر (ڈبلیو ڈبلیو ایف) کے ساتھ کام کرتے ہوئے انہوں نے دریافت کیا کہ 2019 اور 2020 میں آسٹریلیا کے جنگلات میں لگنے والی آگ سے تقریباً تین ارب جانور ہلاک ہوئے تھے جن میں کم از کم پانچ کروڑ مینڈک بھی شامل تھے۔

50 لاکھ سال کا موسمیاتی احوال 80 میٹر طویل پہاڑی پر محفوظ

اس عمر رسیدگی میں بھی ماہونی اپنے شاگردوں کو مینڈکوں سے بات کرنے کے طریقے اور انہیں آواز لگانا سکھاتے ہیں۔ البتہ ماہونی یا ان کے شاگردوں میں سے کوئی بھی مینڈکوں کی زبان سمجھنے کا دعویدار نہیں۔

ماہونی کے تحفظ کے اس جذبے نے ان کے طلباء کو بھی بہت متاثر کیا ہے۔ ان میں سے ایک ، سائمن کلو نے ، 2016 میں ماہونی کے اعزاز میں ایک نئے دریافت مینڈک کا نام "ماہونی ٹاڈلیٹ” رکھا تھا۔

Comments are closed.