سائنسدانوں نے زمین کے قریب نئی ’سپر ارتھ‘ دریافت کر لی یہ ہماری ہی دنیا کی طرح ٹھوس اور پتھریلی زمین پر مشتمل ہے لیکن یہ ہمارے کرہ ارض سے کہیں زیادہ بڑا ہے-
باغی ٹی وی :غیر ملکی ویب سائٹ انڈیپنڈنٹ اردو نے اپنی رپورٹ میں بتایا کہ محققین کا کہنا ہے کہ یہ سیارہ ہمارے نظام شمسی سے باہر پتھریلی چٹانوں والے دیگر سیاروں پر موجود ماحول کو سمجھنے کے لیے بہترین جگہ ہو سکتی ہے س نئی دنیا کو ’گلیز 486b ‘ کا سائنسی نام دیا گیا ہے مگر اسے سپر ارتھ بھی کہا جا رہا کیونکہ یہ ہماری ہی دنیا کی طرح ٹھوس اور پتھریلی زمین پر مشتمل ہے لیکن یہ ہمارے کرہ ارض سے کہیں زیادہ بڑا ہے۔
سپر ارتھ کے نام کے باوجود یہ کئی لحاظ سے ہماری زمین سے مختلف ہے۔یہ سیارہ ہماری زمین سے 30 فیصد بڑا اور تقریباً تین گنا زیادہ بھاری ہے یہ اتنا گرم ہے کہ اس کی سطح پر سیسہ پگھل سکتا ہے اور وہاں لاوا کے دریا اس کی سطح پر بہتے ہیں۔
ایک ستارے کے گرد گھومنے والا یہ سیارہ صرف 26 نوری سال دوری پر ہے جو کائنات میں ہمارا سب سے قریبی پڑوسی ہے گلیز 486b مدار میں گردش کرتے ہوئے اور ایک سرخ چھوٹے ستارے سے قربت کی وجہ سے محققین کی نظر میں آیا۔
اس کی ایک حیرت انگیز وجہ یہ بھی ہے کہ یہ ایک ’منتقل‘ ہونے والا سیارہ ہے اور جب یہ اپنے ستارے کے سامنے سے گزرتا ہے تو سائنس دان اس کا اچھے طرح سے نظارہ کر سکتے ہیں اور اس کے ماحول کی جانچ کرسکتے ہیں یہ غیر معمولی بات ہے کیونکہ اسے دو طریقوں سے دیکھا جا سکتا ہے۔
ایک تو اسے ستاروں کو عبور کرتے ہوئے دیکھا جا سکتا ہے اور دوسرا ڈوپلر ریڈیل ویلاسٹی کے ذریعے بھی اس کا پتہ لگایا جاسکتا ہے۔ دونوں طریقوں کو ملا کر اس سیارے اور اس کے ماحول کے بارے میں مزید تفصیلی معلومات حاصل کی جا سکتی ہیں۔
فوٹو بشکریہ انڈیپینڈنٹ اردو
اس کا ماحول خاص طور سائنس دانوں کو زیادہ پر پُرجوش بناتا ہے کیوں کہ یہ اتنا گرم ہے کہ اس کے ماحول کے پھیلتے ہوئے درجہ حرارت کی ماہر فلکیات پیمائش کر سکتے ہیں۔
دوسرے سیاروں کے ماحول کو جاننے کا ایک کلیدی طریقہ ہے کہ آیا وہاں زندگی کے لیے کیا امکانات ہیں۔ اگر اس کا امکان کم ہے تو یہ اس بات کا اشارہ ہوسکتا ہے کہ اس کا ستارہ غیر مستحکم ہے جو اسے کبھی بھی مٹا سکتا ہے۔
شاید اسی وجہ سے یہاں زندگی کے امکانات کم ہیں زیادہ ترقی یافتہ ماحول یہ تجویز کرے گا کہ یہ زندگی کے لیے بہتر جگہ ہو سکتی ہے۔ گلیز 486b کی سطح کا درجہ حرارت 430 ڈگری سیلسیئس ہے اور اس طرح یہاں ہماری جیسی زندگی کا تصور کرنا مشکل ہے۔
لیکن سائنس دان امید کرتے ہیں کہ وہ اس ماحول کی مزید جانچ کر یہ سمجھنے کی کوشش کر سکتے ہیں کہ آیا اسی طرح کے سیارے انسانوں کی کس طرح مدد کرسکتے ہیں اور وہاں زندگی کا کتنا امکان ہو سکتا ہے۔
اس مطالعے کے شریک مصنف بین مونٹیٹ نے ایک بیان میں کہا یہ وہ سیارہ ہے جسے دریافت کرنے کا ہم کئی دہائیوں سے خواب دیکھ رہے ہیں-
ہم ایک طویل عرصے سے جانتے ہیں کہ قریبی ستاروں کے آس پاس چٹانوں والے سیارے یا سپر ارتھز کا وجود ضرور ہے لیکن ہمارے پاس ابھی تک ان کی تلاش کے لیے ٹیکنالوجی نہیں۔‘
’یہ دریافت کرہ ارض کے ماحول کے بارے میں ہمارے خیالات کو تبدیل کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔‘ سائنس دانوں کو اب امید ہے کہ وہ آنے والے برسوں میں جدید ترین دوربینوں کی مدد سے اس کا مزید باریک بینی سے مطالعہ کرسکیں گے۔
ڈاکٹر مونٹیٹ کا کہنا ہے’گلیز 486b سیارے کی ایک قسم ہے جس کے بارے میں ہم اگلے 20 سالوں میں مزید مطالعہ کریں گے۔ یہ بات نوٹ کرتے ہوئے کہ اگرچہ کائنات میں سپر ارتھز شاذ و نادر نہیں ہیں لیکن کائنات میں ہمارے اپنے پڑوس میں ان کا ملنا غیر معمولی ہے۔