شادی اور فضول رسم و رواج تحریر : چوہدری یاسف نذیر

0
171

Twitter Handle: @IamYasif

پاکستان میں اکتوبر سے مارچ شادیوں کا موسم ہوتا ہے، ہر خاندان میں کوئی نہ کوئی شادی طے ہوتی ہے۔ اکتوبر کا مہینہ آتے ہی ہر طرف سے شادی کارڈ آنے شروع ہوجاتے ہیں جن میں لکھا ہوتا ہے "جوڑے آسمانوں پر بنتے ہیں” لیکن یہ لکھتے وقت ہمارا معاشرہ بھول جاتا ہے کہ جوڑے بے شک آسمانوں پر بنتے ہیں لیکن مشکلات ہم خود پیدا کرتے ہیں۔ تقسیم ہند سے پہلے کئی صدیاں مسلمان، سکھ اور ہندو ایک ساتھ رہے، یوں ایک دوسرے کے رسم و رواج بھی اپنا لئے گئے۔ پاکستان بنا تو اسلام کے نام پر تھا لیکن بدقسمتی سے ہندووانہ رسم و رواج آج بھی ہماری شادی بیاہ میں قائم و دائم ہیں۔

شادیوں پر لاکھوں اڑانے کے بجائے سادگی سے نکاح کرکے بہت سے مسائل سے بچا جاسکتا ہے لیکن ایک جملہ آڑے آجاتا ہے اور وہ ہے "لوگ کیا کہیں گے”۔ آج اسی جملے پر بات کرتے ہیں اور غور کرتے ہیں کہ یہ جملہ کہاں کہاں ہمیں فضول رسم و رواج کی طرف دھکیل رہا ہے

پہلی رسم کا نام ہے منگنی جس پر ہر کوئی اپنی استطاعت کے مطابق ہزاروں سے لے کر کروڑوں روپے لگاکر جھوٹی شان و شوکت قائم کرتا ہے، اگر یہ رسم نہ کریں اور سادگی سے رشتہ طے کریں تو "لوگ کیا کہیں گے” جیسے جملے سنائی دینے لگتے ہیں۔ منگنی کے بعد اکثر اوقات معمولی اختلاف پر رشتے ٹوٹ جاتے ہیں اور پھر خاندان کئی کئی سال ایک دوسرے سے ناراض رہتے ہیں۔

منگنی کے بعد الگ سے شادی کی تاریخ رکھنے کے لئے ایک فنکشن ہوتا ہے جس میں خاندان بھر کے لوگ اکٹھے کرکے دوبارہ سے کھانا پینا کیا جاتا ہے، عام طور پر یہ رسم لڑکی کے گھر کی جاتی ہے، جس سے لڑکی کے خاندان پر اضافی بوجھ پڑتا ہے، حالانکہ شادی کی تاریخ دونوں کے والدین سادگی سے طے کرسکتے ہیں لیکن یہاں بھی لوگ کیا کہیں گے؟ کی وجہ سے سب خاموش ہوجاتے ہیں۔

شادی کی شروعات ڈھولکی سے ہوتی ہے، جہاں کئی دن ڈھول اور اونچی موسیقی لگاکر ہمسایوں کو تکلیف پہنچائی جاتی ہے، مہندی سے قبل سنگیت اور اُبٹن جیسی ہندووانہ رسمیں بھی شادی کا اہم حصہ سمجھی جاتی ہیں، مہندی کی رسم عموماً دو دن ہوتی ہے پہلے لڑکی کی مہندی اور پھر لڑکے کی مہندی۔ آج کل کئی شادیوں پر مشترکہ شادیوں کا رجحان بھی آچکا ہے۔

ایک اور رسم جس کا نام گھڑولی ہے جو بارات والے دن کی جاتی ہے، سر پر پانی کا گھڑا رکھ کر خواتین کسی رشتہ دار کے گھر سے پانی بھر کر لاتی ہیں، یقینا یہ رسم بھی ہمیں بھارت سے ہی ملی ہے۔ بارات کی رسم سے شروعات سے قبل جہیز کے معاملات طے ہوجاتے ہیں، لڑکی کو فرنیچر، برتن اور الیکٹرانک مصنوعات سمیت بعض لوگ گاڑی اور گھر تک دیتے ہیں۔ جہیز سے متعلق واقعات تو ہم اکثر پڑھتے اور دیکھتے ہیں کہ کیسے لڑکیاں جہیز نہ ہونے کی وجہ سے ساری عمر کنواری بیٹھی رہتی ہیں لیکن لڑکوں کے ساتھ بھی کوئی اچھا سلوک نہیں ہوتا۔ حق مہر کے علاوہ دلہن کے سونے کے زیورات اور رشتے داروں کے مہنگے لباس کی رسم بھی موجود ہے۔ بارات کے آتے ہی دولہا کو صوفے پر جگہ دینے کے نام پر رقم بٹوری جاتی ہے، اسکے بعد جوتا چھپائی اور دودھ پلائی جیسی متعدد رسومات کے نام پر دولہے کی جیب خالی کی جاتی ہے۔ ولیمہ کی رسم میں کو بھی شاہانہ طرز دینے کی وجہ سے نوبیاہتا جوڑے پر مالی دباو آتا ہے، مہنگے شادی ہال اور لذیز پکوان ضروری تصور کئے جاتے ہیں

نیچے دی گئی چند احادیث کی روشنی میں نکاح کی اہمیت کا اندازہ کریں

حضرت ابو ایوب ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ نے ارشاد فرمایا: چار چیزیں انبیاء کرام (علیہم السلام) کی سنت میں سے ہیں:حیاء ،خوشبو لگانا، مسواک کرنا اور نکاح‘
(ترمذی، ج:۱،ص:۲۰۶)

ابن ابی نجیح رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ا نے ارشاد فرمایا کہ: مسکین ہے، مسکین ہے وہ مرد جس کی بیوی نہ ہو۔ لوگوں نے عرض کیا: اگرچہ وہ بہت مال والا ہو تب بھی وہ مسکین ہے؟ آپ ا نے فرمایا: ہاں! اگرچہ وہ بہت مال والا ہو، پھر فرمایا: مسکین ہے، مسکین ہے وہ عورت جس کا خاوند نہ ہو، لوگوں نے عرض کیا: اگرچہ بہت مالدار ہو تب بھی وہ مسکین ہے؟ آپ ا نے فرمایا: ہاں! اگرچہ مال والی ہو‘‘۔
(مجمع الزوائد ،ج:۴،ص:۳۲۸،بحوالہ معجم طبرانی اوسط )

حضور اکرم ا کا ارشاد ہے:
’’اے جوانو!تمہیں نکاح کرلیناچاہیے، کیونکہ یہ نگاہ کو زیادہ جھکانے والا اور شرمگاہ کی زیادہ حفاظت کرنے والا ہے،اور جو اس کی طاقت نہ رکھے وہ روزے رکھے‘‘۔ (ترمذی، ج:۱،ص:۲۰۶)

’’جو شخص نکاح کرنے کی طاقت ہونے کے باوجود نکاح نہ کرے، وہ مجھ سے نہیں ہے(یعنی اس کا مجھ سے کوئی تعلق نہیں)‘‘۔ (مجمع الزوائد،ج:۴،ص:۳۲۷)

ہمیں سوچنا چاہیئے کہ نکاح کو ہم نے آخر کیوں مشکل بنادیا ہے، اگر ہم اسلامی احکامات پر عمل کریں تو ان فضول رسومات سے بچ سکتے ہیں اور اس میں کوئی شک نہیں کہ نکاح میں تاخیر سے معاشرے میں بےراہ روی بڑھی ہے۔ اللہ پاک ہمیں سادگی اور میانہ روی احتیار کرنے کی توفیق عطا فرمائے، آمین

Chaudhry Yasif Nazir is a freelance journalist, Columnist, Writer and social media activist who writes for baaghitv.com . He raises social and political issues through his articles, for more info visit his twitter

account @IamYasif

https://twitter.com/IamYasif

Leave a reply