شہادت خلیفہ دوئم، امیرالمؤمنین سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہہ تحریر: احسان الحق

0
79

27 ذوالحج سے یکم محرم الحرام تک کے ایام خلیفہ دوئم امیرالمؤمنین سیدنا عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہہ کے زخمی ہونے اور شہید ہونے کے دن ہیں. امیرالمؤمنین نے مدینہ منورہ میں اجنبی غیر مسلم نوجوانوں کے داخلے پر پابندی عائد کر رکھی تھی. ایک دن حضرت مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ تعالیٰ عنہہ نے امیرالمؤمنین کی خدمت میں معروضہ پیش کیا کہ ایک کاریگر نوجوان ہے جو لوہار اور بڑھئی کے ساتھ ساتھ ماہر خطاط بھی ہے. اس کے علاوہ بھی کافی ہنر جانتا ہے. اگر اس نوجوان کو مدینے میں آنے کی اجازت عنایت فرمائیں تو لوگوں کا بہت فائدہ ہوگا.

کاریگر نوجوان کی مدینہ آمد سے پہلے کچھ اور اہم حالات اور واقعات جان لیتے ہیں. معید بن مسیب اور حاکم بیان کرتے ہیں کہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہہ اونٹ پر سوار ہو کر منیٰ سے نکلے اور مقام بطح پر رک گئے. سیدنا عمرؓ اپنے اونٹ کے سہارے کھڑے ہو کر آسمان کی طرف منہ کر کے اللہ تعالیٰ سے یہ دعا فرمائی.
"اے اللہ، میں کمزور ہو گیا ہوں. میری قوت جواب دے رہی ہے. میرے خیالات منتشر ہو رہے ہیں. اس سے پہلے کہ ضعف عقلی کی وجہ سے خرابی پیدا ہونے کا اندیشہ ظاہر ہو، مجھے اپنے پاس بلا لے”
امام بخاری نے بحوالہ ابو صالح لکھا ہے کہ ایک دن حضرت کعب بن احبار نے امیرالمؤمنین سے فرمایا کہ میں نے تورات میں لکھا دیکھا ہے کہ آپ شہید کئے جائیں گے. یہ سن کر آپ امیرالمؤمنین فرماتے ہیں یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ جزیرۃ العرب میں رہتے ہوئے مجھے شہادت ملے.
اسلمی کہتے ہیں کہ کعب کی بات سن کر امیرالمؤمنین نے فرمایا کہ "اے اللہ مجھے شہادت کی موت نصیب عطا فرما اور میری روح مدینہ میں قبض ہو اور یہاں مجھے دفن فرما”

حج کی غرض سے امیرالمؤمنین خلافت کے 11ویں سال بمطابق ذوالحج 23 ہجری کو مکہ مکرمہ تشریف لے گئے. اسی مہینے کے آخر میں مدینہ منورہ واپس تشریف لائے. جمعہ کا طویل خطبہ دیا اور اسی خطبہ میں لوگوں کو نصیحتیں کیں اور ایک خواب کا ذکر کیا. معدان بن ابوطلحہ کی زبانی حاکم لکھتے ہیں کہ خطبہ جمعہ میں امیرالمؤمنین نے فرمایا کہ میں نے خواب دیکھا ہے کہ ایک مرغے نے مجھے دو ٹھونگیں ماریں. جس کا مطلب ہے کہ میری موت نزدیک ہے. آپ نے یہ فرمایا کہ لوگ اصرار کر رہے کہ میں اپنا جانشین مقرر کروں، اگر میری موت جلدی واقع ہو جائے تو ان 6 لوگوں میں سے کسی کو منتخب کر لینا جن سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنی حیات میں راضی تھے. آپ نے خلافت کے لئے ان 6 حقداروں اور امیدواروں کا نام لیا.
عثمان بن عفان، علی بن ابوطالب، سعد بن وقاص، عبدالرحمن بن عوف، زبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہا.

کاریگر نوجوان کا نام ابولولوء فیروز تھا جو کہ ایرانی مجوسی تھا. ابولولوء مغیرہ بن شعبہ کا غلام تھا. ابولولوء فیروز ایک دن امیرالمؤمنین کے دربار میں حاضر ہو کر حضرت مغیرہ بن شعبہ کی شکایت کی کہ میں جو دن بھر کماتا ہوں میرا آقا اس میں زیادہ رقم لے لیتا ہے. اس میں سے کمی کروا دیں. امیرالمؤمنین نے دریافت کیا کہ کون سا کام جانتے ہو؟ اس نے جواب دیا کہ میں لوہار بھی ہوں، بڑھئی بھی ہوں اور بیل بوٹے بنانا بھی جانتا ہوں. سیدنا عمرؓ نے پوچھا کہ تمہارا آقا روزانہ کتنی رقم لیتا ہے؟ اس نے جواب دیا کہ دو درہم روزانہ. امیرالمؤمنین سیدنا عمرؓ نے فرمایا کہ تم جو کام کرتے ہو اس کے لئے تو یہ رقم مناسب ہے. یہ سنتے ہی ابولولو اندر سے ناراض ہو کر چلا گیا.

دوبارہ امیرالمؤمنین سیدنا عمرؓ نے ابولولوء کو بلایا اور فرمایا کہ تم نے کہا تھا کہ ہوا سے چلنے والی چکی بنا کر دونگا. اس پر ملعون ابولولوء نے کہا کہ ایسی چکی بنا کر دوں گا کہ تم یاد کروگے. اس کے جانے کے بعد امیرالمؤمنین سیدنا عمرؓ نے ساتھیوں سے فرمایا کہ یہ مجھے دھمکی دے کر گیا ہے اور میں اس پر گرفت نہیں کر سکتا کیوں اس کا جرم واضح یا ظاہر نہیں، اس نے ذو معنی الفاظ میں اپنا ارادہ ظاہر کر کے مجھے دھمکی دی ہے.
اگلے دن صبح کی نماز کے وقت ملعون ابولولوء مسجد نبویؐ میں چھپ کر بیٹھ گیا. قاتل کے پاس 2 رخ والا دو دھاری خنجر تھا. جس کے درمیان میں دستہ تھا.
امیرالمؤمنین نماز پڑھا رہے تھے اور جب سورۃ یوسف کی تلاوت شروع کی تو ملعون ابولولوء نے اندھیرے کا فائدہ اٹھاتے ہوئے امیرالمؤمنین کے کندھے اور کوکھ کے درمیان 6 وار کئے اور بھاگنے کی کوشش میں پہلی صف میں کھڑے 13 نمازیوں پر بھی پر حملہ کیا. اس حملے میں امیرالمؤمنین شدید زخمی ہو کر گر پڑے. ایک عراقی نے ابولولوء پر چادر پھینک کر پکڑنے کی کوشش کی مگر ابولولوء نے اسی خنجر سے خود پر وار کرتے ہوئے خودکشی کر لی. 13 زخمی نمازیوں میں سے 7 شہید ہو گئے.

ادھر امیرالمؤمنین شدید زخمی ہو چکے تھے. انہوں نے عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ تعالیٰ عنہہ کو نماز مکمل کرنے کے لئے آگے کر دیا. امیرالمؤمنین نے عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہہ سے پوچھا کہ مجھ پر کس نے حملہ کیا. بتایا گیا کہ مغیرہ بن شعبہ کے غلام نے، یہ سنتے ہی امیرالمؤمنین نے اللہ کا شکر ادا کیا کہ مجھے ایک ایسے بندے نے مارنے کی کوشش کی جس نے کبھی اللہ تعالیٰ کے آگے سجدہ نہیں کیا. میری موت کسی ایسے شخص کے ہاتھوں نہیں ہو رہی جو کلمہ گو ہو. آپ کو گھر لایا گیا. زخمی امیرالمؤمنین کو دودھ پلایا گیا تو وہ زخموں کے راستے پیٹ سے باہر نکل آیا. ایسے میں آپ امیرالمؤمنین کو اندازہ ہو گیا اب میرا زندہ رہنا بہت مشکل ہے.
عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہہ سے پوچھا کہ میرا کتنا قرض ہے، حساب لگا کر بتایا گیا کہ چھیاسی ہزار. آپ نے اپنے بیٹے کو یہ قرض اتارنے کے ساتھ ساتھ دوسری نصیحتیں بھی کیں پھر ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے پاس بھیجا کہ جا کر امی عائشہ صدیقہ کو کہو کہ عمر سلام کہتا ہے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مبارک پہلو میں دفن ہونے کی اجازت چاہتا ہے. امی عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے اجازت دے دی. امیرالمؤمنین نے فرمایا کہ میرے مرنے کے بعد اور دفنانے سے پہلے میرا جنازہ امی عائشہ صدیقہ کے پاس لے جانا اور دوبارہ پوچھنا، ہو سکتا ہے ابھی انہوں نے مجھے بحیثیت خلیفہ دفن ہونے کی اجازت دی ہو.

امیرالمؤمنین 27 ذوالحج 23 ہجری کو زخمی ہوئے اور 3 دن بعد یکم محرم 24 ہجری کو شہادت کے درجے پر فائز ہوئے. آپ کی عمر پر کچھ اختلاف ہے مگر 63 سال پر زیادہ اتفاق ہے. آپ امیرالمؤمنین کا جنازہ حضرت صہیب رضی اللہ تعالیٰ عنہہ نے پڑھایا. حضرت علی، حضرت عثمان، حضرت سعد بن وقاص اور عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ تعالیٰ عنہم نے امیرالمؤمنین کی میت مبارک کو قبر میں اتارا. خلیفہ دوئم امیرالمؤمنین کو ہمیشہ ہمیشہ کے لئے امام الانبیاء نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور خلیفہ اول امیرالمؤمنین حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہہ کا ساتھ نصیب ہو گیا.

@mian_ihsaan

Leave a reply