شہباز شریف نے امریکہ اور چین کے درمیان ثالثی کی پیشکش کردی
تائیوان کے معاملے پر امریکہ اور چین کے تعلقات میں بڑھتی ہوئی کشیدگی پر وزیر اعظم شہباز شریف نے کہا ہے اگر دونوں فریق چاہیں تو پاکستان دنیا میں امن و استحکام کیلئے دونوں ممالک کے درمیان اختلافات کو ختم کرانے کے لیے مثبت کردار ادا کرنے کیلئے تیار ہے۔ انہوں نے نیوز ویک کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ اگر چین اور امریکہ چاہیں تو پاکستان ان کے اختلافات کو ختم کرانے کے لیے مثبت کردار ادا کرنے پر خوش ہو گا، جیسا کہ ہم نے ماضی میں بھی کیا تھا،نصف صدی قبل دونوں ملکوں کو ایک دوسرے کے قریب لانے میں اسلام آباد کا اہم کردار رہا ہے ۔
متحدہ عرب امارات نے ہمیشہ پاکستان کی مشکل وقت میں مدد کی،وزیراعظم
نیوز ویک کے سینئر فارن پالیسی رائٹر ٹام او کونرنے ای میل کے ذریعے وزیر اعظم شہباز شریف کا انٹرویو لیا، وزیر اعظم نے زیادہ سے زیادہ بین الاقوامی تعاون کی ضرورت پر زور دیا اور بتایا کہ پاکستان دنیا کو بحرانوں اور دیگر مسائل سے نکالنے میں کیا کردار ادا کر سکتا ہے۔ وزیر اعظم شہباز شریف نے نہ صرف امریکہ اور چین کے درمیان تعلقات کی شدید خرابی پر اپنے خیالات کا اظہار کیا بلکہ یوکرین اورروس کے درمیان جاری جنگ کے بارے میں اپنے موقف کااظہار کیا۔ ، پڑوسی ملک افغانستان میں افراتفری، تنازعہ کشمیر کے حل نہ ہونے اور پاکستان کی سرحدوں کے اندر عسکریت پسندوں کے حملوں میں اضافے پر تبادلہ خیال کیا ۔ وزیر اعظم شہباز شریف نے اپریل میں عدم اعتماد کے ووٹ کے نتیجے میں وزارت عظمی کا عہدہ سنبھالا ۔
وفاقی کابینہ اجلاس، 10 نام ای سی ایل میں ڈالنے کی منظوری
اقتصادی اصلاحات اور استحکام کے متفقہ قومی ایجنڈے پر ملک کی تمام سیاسی قوتوں کے اکٹھے ہونے کا حوالہ دیتے ہوئے وزیر اعظم نے کہا کہ موجودہ حکومت واقعی قومی نوعیت کی ہے۔انہوں نے کہا کہ پاکستان نے روایتی طور پر چین اور امریکہ کے ساتھ اچھے تعلقات برقرار رکھے ہیں۔انہوں نے کہا کہ پاکستان محاذ آرائی سے گریز کی ضرورت کو اجاگر کرتا رہا ہے، انہوں نے مزید کہا کہ گروہی سیاست اور سرد جنگ کی طرف بڑھنے سے کوئی مثبت نتیجہ نہیں نکلے گا اور درحقیقت ترقی اور استحکام کے لیے نقصان دہ ہوگا۔پاکستان اس بات پر پختہ یقین رکھتا ہے کہ بین الریاستی تعلقات کی بنیاد اقوام متحدہ کے چارٹر اور بین الاقوامی قوانین کے اصولوں کو برقرار رکھتے ہوئے باہمی احترام اور تنازعات کے پرامن حل پر ہونی چاہیے۔
اوورسیزپاکستانی ہمارا بہترین قومی اثاثہ ہیں:رانا ثنااللہ
وزیر اعظم نے کہا کہ COVID-19 وبائی امراض اور یوکرین کے بحران کےعالمی معیشت پر سنگین اثرات مرتب ہوں گے۔پاکستان جیسے ترقی پذیر ممالک پہلے ہی اپنی سماجی و اقتصادی بہبود کے لیے بیرونی خطروں سے دوچار ہیں اور بڑی طاقتوں کے درمیان دشمنی کی وجہ سے پیدا ہونے والے ان چیلنجوں میں اضافہ نہیں چاہتے۔ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ پاکستان امریکہ کے ساتھ باہمی احترام اور باہمی فائدے کی بنیاد پر وسیع البنیاد اور پائیدار شراکت داری کا خواہاں ہے۔وزیر اعظم نے کہا کہ ہم بڑی امریکی کمپنیوں کی پاکستان کی منافع بخش مارکیٹ،خاص طور پر آئی ٹی سیکٹر، میں سرمایہ کاری کرنے اور تجارتی تعلقات کو بڑھانے کے لیے حوصلہ افزائی کرتے ہیں۔
ترقی پذیر ممالک کے ساتھ کام کرنے کے لیے تیار ہیں،چین
انہوں نے یوکرین کے تنازع کا کثیرالجہتی معاہدوں، بین الاقوامی قانون اور اقوام متحدہ کے چارٹر کی دفعات کے مطابق سفارتی حل پر زور دیا۔بھارت کے ساتھ کشیدگی پر وزیراعظم نے کہا کہ پاکستان تمام پڑوسیوں کے ساتھ اچھے تعلقات کا خواہاں ہے، لیکن نئی دہلی کی جانب سے 5 اگست 2019 کو مقبوضہ جموں و کشمیرمیں بھارت کی غیر قانونی اور یکطرفہ کارروائیاں علاقائی تعمیر و ترقی میں اسلام آباد کی کوششوں کو ایک بہت بڑا دھچکا تھا۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان باہمی احترام اور خودمختار برابری کی بنیاد پر خطے میں امن کو فروغ دینے کے لیے ہمیشہ تیار رہا ہے، اس بات پر زور دیتے ہوئے کہ ہندوستان اور پاکستان کے درمیان بنیادی مسئلہ جموں و کشمیر کا تنازعہ ہے، جس کے حل سے خطے میں نئی راہیں کھلیں گی۔
افغانستان میں بگڑتی ہوئی معاشی اور انسانی صورت حال پر وزیراعظم نے کہا عالمی برادری کے لیے ہمارا پیغام ہوگا کہ اہم سماجی اور اقتصادی شعبوں میں عبوری حکومت کی مدد جاری رکھیں اور افغانستان کے مالیاتی اثاثوں کو غیر منجمد کیا جائے تاکہ افغانستان کی تعمیر میں مدد ملے۔ہم عبوری افغان حکومت کو اس کے وعدوں پر قابل عمل اقدامات کرنے کی اہمیت کو اجاگر کرتے رہیں گے جن میں شمولیت سے متعلق، تمام افغانوں کے انسانی حقوق کا احترام، بشمول لڑکیوں کی تعلیم، اور مؤثر انسداد دہشت گردی کارروائی شامل ہیں۔
ایک سوال کے جواب میں وزیراعظم شہباز شریف نے کہا کہ پاکستان دہشت گردی کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کے لیے پرعزم ہے۔یہ بھی کوئی راز نہیں کہ پاکستان دہشت گردی کا سب سے بڑا شکار رہا ہے جس کی منصوبہ بندی، معاونت اور مالی معاونت دشمن خفیہ ایجنسیاں کرتی رہی ہیں۔ان دہشت گردانہ کارروائیوں کا بنیادی مقصد پاکستان کو غیر مستحکم کرنا اور ہماری معاشی ترقی کو نقصان پہنچانا ہے۔