شہید محترمہ بے نظیر بھٹو کی زندگی پر ایک نظر تحریر :ساجد علی

0
215

شہید بے نظیر بھٹو کسی بھی اسلامی ملک کی پہلی ہیڈ آف اسٹیٹ ہیں ان کی کہانی شہید ذوالفقار علی بھٹو سے شروع ہوتی ہے شہید الفقار علی بھٹو جو آج بھی لوگوں کے دلوں میں زندہ ہیں یہ پاکستان کے پہلے الیكٹڈ وزیراعظم ہیں بھٹو صاحب ایک زبردست سیاست دان تھے 

جب بھٹو صاحب کو پھانسی ہوئی تو اس وقت بھٹو صاحب کے بیٹے مرتضی بھٹو ضیاء حکومت کے خلاف ایک تحریک بھی چلا رہے تھے 

اس تحریک کا نام تھا "الذوالفقار”

مرتضی بھٹو سیاست میں بہت مشہور ہو رہے تھے اور دوسری طرف ان کی بہن بے نظیر بھٹو کو ضیاء حکومت نے نظر بند کر رکھا تھا جس کی وجہ سے سیاست میں وہ بھی بہت مشہور ہو رہی تھی آخر کار 1984 میں جب بے نظیر کو رہائی ملی تو ملک سے باہر باہر چلی گئیں اپنے والد کی طرح بے نظیر دنیا کی بہترین یونیورسٹیز میں گریجویٹ کر چکی تھی جس میں "ہاؤورڈ اور آکسفورڈ” یونیورسٹیز شامل ہیں ۔

پاکستان سے باہر رہ کر بھی بے نظیر کافی مشہور ہو چکی تھی 

1986 میں جب بے نظیر وطن واپس آئیں تو لاہور میں ان کا زبردست استقبال کیا گیا جس کی مثالیں آج بھی دی جاتی ہے 

اور استقبال کے بعد واضح ہو گیا کہ پاکستان کی اگلی وزیر اعظم بے نظیر ہی ہوگی اور بالکل ایسا ہی ہوا 1988 میں جب ضیاء الحق کا طیارہ تباہ ہوا تو اس کے بعد ہونے والے الیکشن میں پاکستان پیپلز پارٹی کی حکومت بنی ۔

پاکستان دنیا کے پہلے ممالک میں سے ہے جنہوں نے ایک فیمیل ہیڈ آف اسٹیٹ سلیکٹ کی ہے جبکہ امریکا آج تک ایسا نہیں کر سکا 

الیکشن سے پہلے بے نظیر کو مشورہ دیا گیا کہ آپ شادی کر لیں 

ایک نوجوان لڑکی کی بجائے ایک شادی شدہ عورت زیادہ بردبار ذہین اور عوام سے جڑی ہوئی لگے گی اور بے نظیر اس مشورے کو مان گئی ۔

اور بے نظیر نے فیصلہ کیا کہ وہ ارینج میرج کریں گے جس کے بعد ان کی والدہ نے اس کی شادی حاکم علی زرداری کے بیٹے آصف علی زرداری سے کروائیں اور یہ شادی بڑی دھوم دھام سے ہوئی جس میں دو لاکھ سے زیادہ لوگوں نے شرکت کی۔

 بے نظیر بھٹو وزیراعظم تو بن گئی لیکن پنجاب میں ان کی حکومت نہیں آئی اور بیوروکیسی کی بھی پیپلزپارٹی کو کوئی خاص سپورٹ نہیں تھی کیونکہ ضیاء دور میں پاکستان پیپلزپارٹی کی پاکیات کو چن چن کر ختم کیا گیا تھا ۔

اس لیے بے نظیر بھٹو کا پہلا دور تو حالات سنبھالتے سنبھالتے ہی نکل گیا کیونکے پنجاب کے وزیر اعلی نواز شریف نے بے نظیر کی ناک میں دم کر رکھا تھا اور جب سارے ہیں آپ کے پیچھے پڑ جائے تو حکومت کیا چلے گی اور بینظیر بھٹو کی حکومت تقریبا 20 ماہ کے بعد ختم ہوگئی 

اور اسی طرح 1993 میں بینظیر بھٹو ایک بار پھر الیکشن جیت گئی اور اس بار وہ بہت میچور ہو گئی تھی اور اس بار وہ حالات سے مقابلہ کرنے کے لئے تیار ہو چکی تھی اسی دور میں بے نظیر کے بھائی مرتضی بھٹو کو گولیاں مار کر قتل کر دیا گیا ۔ 

آخر کار نتیجہ یہ نکلا کہ بے نظیر کے تین سالہ حکومت کے بعد بے نظیر کے اپنے ہی لگائے ہوئے صدر فاروق لغاری نے ان کی حکومت توڑ دی 

اور اگلی بار الیکشن میں شکست ہونے پر بے نظیر بھٹو صاحبہ ملک سے باہر چلی گئی ۔

1999 میں مشرف نے ملک پر مارشل لاء لگا دیا تو 2000 میں نواز شریف بھی ملک چھوڑ کر چلے گئے ۔

اور مشرف سکون سے حکومت کرتے رہے لیکن وقت کے ساتھ ساتھ اپنی ہی بنائی ہوئی مسلم لیگ ق سے تنگ آنے لگے  

اور 18 اکتوبر 2007 کو بینظیر نے ملک میں واپسی قدم رکھا اور بے نظیر کا بھرپور استقبال کیا گیا لیکن استقبال کے ساتھ ساتھ ایک بم دھماکا بھی ہوا جس میں 200 سے زیادہ لوگ مارے گئے اور 500 سے زیادہ زخمی ہوئے 

اور شہدائے کارساز کے دھماکے کے بعد بھی ان کا حوصلہ بہت بلند تھا اور اس دھماکے سے صرف دو ماہ بعد 27 دسمبر 2007 کو بے نظیر کا لیاقت باغ راولپنڈی میں ایک جلسہ تھا اور یہ وہی جگہ تھی جہاں پر پاکستان کے پہلے وزیر اعظم لیاقت علی خان کو ایک افغان شہری نے گولی مار کر قتل کر دیا تھا اور اسی مقام پر محترمہ بینظیر بھٹو صاحبہ جب جلسہ ختم کرکے واپس جا رہی تھی تو اپنے کارکنوں کو داد دینے کے لیے وہ اپنی گاڑی سے باہر نکل کر کارکنوں کو ہاتھ ہلا کر داد دینے لگی اس کے بعد ان کی گاڑی پر فائرنگ کی گئی اور پھر بم دھماکا ہوا اس طرح کچھ ظالموں نے محترمہ بے نظیر بھٹو کو بھی شہید کر دیا ۔ 

ہم سب کو وہ دن یاد ہے وہ وقت یاد ہے جب ان کو شہید کیا گیا خاص طور پر وہ لوگ جو بے نظیر صاحبہ کے ساتھ جلسے میں تھے پیپلز پارٹی کے تمام کارکن سڑکوں پر نکل آئے تھے اور حالات تمام خراب ہونے لگے تھے مگر پیپلز پارٹی کے لیڈر نے بات بگڑنے نہیں دی اور اپنےکارکنوں کو حوصلہ دیا 

یہ بات تو سچ ہے بے نظیر ایک مضبوط لیڈر تھیں ان کو بہت مشکل حالات کا سامنا کرنا پڑا ان کے والد ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی لگا دی گئی اور ان کو کئی بار جیل کا سامنا کرنا پڑا لیکن پھر بھی وہ ڈٹی رہی اور اپنے ملک کے لیے لڑتی رہی ایک باہمت اور ثابت قدم خاتون تھیں 

دعا ہے اللہ تعالی ان کے درجات بلند فرمائے اور ان کو جنت میں اعلی مقام عطا فرمائے آمین

    

Leave a reply