پیارے بابا جان، "شیخ الحدیث مولانا رحمت اللہ ربانی” کی حیات کے چند پہلو از قلم:مسز ناصر ہاشمی (بنت ربانی )

0
100

پیارے بابا جان، "شیخ الحدیث مولانا رحمت اللہ ربانی”
از قلم:مسز ناصر ہاشمی (بنت ربانی )

کون جانتا تھا؟؟؟
انڈیا کے گاؤں انبالہ سے اپنی بیوہ ماں کی انگلی پکڑ کر آنے والا یتیم بچہ اگلے وقتوں میں دعوت دین کا داعی بنے گا۔اور ہر جا توحید وسنت کا پرچار کرے گا۔
میری نظریں اس نیک صفت انسان کو ڈھونڈتی ہیں جس کے بارے میں ابا جان کہتے تھے کہ اس رحم دل انسان نے مجھے لاوارث اور بے سہارا سمجھ کر ایک مدرسہ میں داخل کروا دیا اور یوں سات سال کی عمر میں ہی آپ ایک اعلی مشن پر گامزن ہو گئے ۔اور پھر "ہونہار بروا کے چکنے چکنے پات” کے مصداق بچپن سے ہی اپنے خاندان سے کہیں مختلف ،جاہلانہ خرافات سے بہت دور عالمانہ ذہنیت کے حامل بن گئے ۔
پھر۔۔۔۔۔۔۔چل سو چل علم کا سلسلہ شروع ہوا۔ بہت سے علماء بلخصوص احسان الہی ظہیر شہید اور پروفیسر حافظ سعید آپ کے ہم جماعت اور ہم عصر رہے ۔
میرے بابا جان کے پاس ایک درجن سے زائد علم و ادب کی اسناد موجود تھیں۔ حرمین شریفین میں بھی معلم رہے۔ مزید یہ کی مختلف مساجد میں امامت و خطابت کے فرائض سر انجام دیئے۔گورنمنٹ سکول میں عربی کے استاد رہے۔ اپنی زندگی میں دو مساجد تعمیر کیں اور ان کی تعمیر میں بھرپور حصہ لیا بلکہ دن رات ایک کر دیا۔
آپ ایک مثالی باپ،دعوت حق کے داعی، با عمل عالم ،مفتی شفیق استاد ،ادیب اور شاعر بھی تھے۔آپ نے بہت سی نظمیں اور کم وبیش پندرو کتابیں تصنیف کیں۔
میرے سسر محمد بشیر ھاشمی اللہ پاک ان کی قبر پر کروڑوں رحمتیں نازل فرمائے 1983 میں فوج سے ریٹائر ہو کر مسجد بلال کے پاس گھر لے لیا اور مولانا ربانی صاحب سے قرآن کی تعلیم حاصل کرنے لگے تو پھر دنیا چھوڑ کر ان کے ہی ہو گئے۔مجھے اکثر کہتے تمھارے والد نے مجھے بتایا کہ حق کیا ہے اور باطل کیا ہے۔انہوں نے میری اصلاح کی۔
ایک مثال تو میرے گھر میں موجود تھی اور اس طرح کی سینکڑوں مثالیں ملک بھر میں پھیلی ہوئ ہیں۔ایسے لوگ دنیا میں بھت کم پیدا ہوتے ہیں۔
ہزاروں سال نرگس اپنی بے نوری پر روتی ہے
بڑی مشکل سے ہوتا ہے چمن میں دیدہ ور پیدا
اللہ ایسے بندوں کو ضائع نہیں کرتا جو اس کا نام بلند کرنے کے لئے اپنی زندگیاں وقف کر دیتے ہیں۔ وہ انہیں لوگوں کے دلوں میں زندہ رکھتا ہے۔اسی لئے تو۔۔۔۔۔
جب میرے عظیم بابا۔۔۔۔۔
4 جون 2020 کو ہم سے جدا ہو کر سفر آخرت پر روانہ ہوئے
تو۔۔۔۔آگے آگے مسافر کی بارات تھی
پیچھے پیچھے زمانہ تھا روتا
چلا
اک شورش ہی گھر سے اکیلا
چلا
شہر کا شہر جیسے روانہ ہوا
میرے پیارے بابا جان!!!
ہم آپ کو روک نہیں سکے کیونکہ جو دنیا میں آیا اس نے اس دارفانی سے جانا ہی ہے۔
لیکن یہ سوچ کر دل غم سے بھر جاتا ہے کہ اب وہ ہاتھ کبھی نظر نہیں آئیں گے جو حق بات کو ثابت کرنے کے لئے سٹیج پر لہراتے تھے ۔
ان قدموں کی چاپ کبھی سنائ نہ دے گی جو دعوت دین پھیلانے کے لئے اٹھا کرتے تھے۔
وہ آواز کبھی سنائ نہ دے گی جس میں اطعیواللہ و اطعیو الرسول کی گونج سنائ دیتی تھی
وہ آنکھیں کہاں گم ہو گئیں جو اپنی پیاری بیٹی کی راہ تکتی تھیں
وہ آہیں وہ سسکیاں وہ ہاتھ جو وقت تہجد ہمارے لیے اٹھا کرتے تھے……سب ختم ہو گیا
خاک مرقد پر میں لے کر
تیری یہ فریاد آؤں گی
دعاء نیم شب میں میں کس
کو یاد آؤں گی
توحید وسنت کا یہ باب ہمیشہ ہمیشہ کے لئے بند ہو گیا۔لیکن ہمارے لیے دین اسلام کی بہت سی راہیں ہموار کر گیا۔
اللہ تعالی میرے والد کو جنت الفردوس میں اعلی مقام عطا کرے۔ان کے صغیرہ و کبیرہ گناہوں کو معاف کرے اور ان کی اولاد اور ان کے تلامزہ کو ان کے لئے صدقہ جاریہ بنائے( آمین )
آسمان تیری لحد پہ شبنم
افشانی کرے
سبزہ نور ستہ اس گھر کی
نگھبانی کرے

Leave a reply