"شاید کہ اُتر جائے تیرے دل میں میری بات ”
از قلم ایمان کشمیری
صد شکر کہ رمضان المبارک کا بابرکت اور سعادتوں والا مہینہ ہم پر پھر سے سایہِ فگن ہے ، یہ مہینہ اتنا بابرکت ہے کہ اس میں ہر نیکی کا اجر بڑھا کر سات سو گنا تک کر دیا جاتا ہے ، اس مہینے میں رب کی رحمت ، برکت اور مغفرت بے بہا ہو جاتی ہے ۔۔ اسی مہینے کے بارے میں ہی نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے ناں کہ :
” اُس شخص کی ناک خاک آلود ہو ،جس پر رمضان آئے اور وہ گزر جائے مگر اِس کے گناہ معاف نہ ہوں ”
ناک خاک آلود ہونے سے مراد اللہ کی رحمت سے محرومی ہے، یعنی جس کے پاس رمضان کا مہینہ آیا مگر اُس نے اس مہینے میں رب کو راضی کر کے اپنے گناہ نہ بخشوائے تو وہ بہت بدقسمت ہے اور اللہ رب العزت کی رحمت سے محروم ہو جاتا ہے ۔۔۔
آپ سب جانتے ہیں کہ رمضان المبارک کے آنے سے پہلے ہم کرونا وائرس جیسی آزمائش میں مبتلا تھے، اِس نظر نہ آنے والے وائرس کا خوف اِس قدر طاری ہو چکا تھا کہ سب گھروں میں بند ہو گئے تھے ، سکول ، کالج، یونیورسٹیاں ،مدارس ، بازار یہاں تک کہ مساجد کو بھی بند کر دیا گیا تھا مبادا کہ کسی متاثرہ بندے سے دوسرے کو وائرس ٹرانسفر نہ ہو جائے ۔۔۔ قصہ مختصر کہ پوری دُنیا اس چھوٹے سے اور نظر نہ آنے والے وائرس کی وجہ سے سُنسان اور ویران ہو چکی تھی ۔۔ ہم مسلمان جو اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ کوئی مصیبت یا تکلیف نہ تو رب کی اجازت کے بغیر آ سکتی ہے اور نہ ہی جا سکتی ہے، چنانچہ ہم رمضان المبارک کا بڑی بے صبری کے ساتھ انتظار کر رہے تھے کہ جیسے ہی رمضان کا مبارک مہینہ شروع ہو گا رب اپنی بے پناہ رحمتوں اور برکتوں کے سبب ہم سے اِس آزمائش کو ختم کر دے گا ، ہم روزے کی حالت میں زیادہ رب کے قریب ہوں گے ، زیادہ سے زیادہ عبادت کریں گے ، رو رو کے اپنی عرضیاں رب کے حضور پیش کریں گے مطلب جتنی بھی سستی اور کوتاہی ہم سے گزشتہ زندگی میں ہو چکی ہم اِس مہینے میں اُس کا ازالہ کر لیں گے ۔۔۔
مگر افسوس ہوا کیا ،رمضان المبارک کا مہینہ تو شروع ہو گیا اور ہم جو رمضان المبارک کا بڑی بے صبری سے انتظار کر رہے تھے ترکی کے ایک سیریل ارطغرل میں مگن ہو گئے ، ہم بھول گئے کہ ہم کس مصیبت سے دو چار تھے اور ہمیں اِس مہینے کی کتنی ضرورت تھی ۔۔ آپ کے دل میں خیال آیا ہو گا کہ میں اِس سیریل کے دیکھنے پہ فتوٰی لگانے لگی ہوں ، ارے نہیں نہیں ۔۔۔ میں نہ تو کوئی عالمہ ہوں اور نہ ہی مفتیہ، میں اِس سیریل کو دیکھنے سے منع بھی نہیں کر رہی ،انڈین فلمیں اور ڈرامے دیکھنے سے تو بہتر ہے ایسے سیریل ہی دیکھ لیے جائیں ، مگر میں یہاں جس چیز کےلیے فکر مند ہو رہی ہوں وہ رمضان المبارک کا تیزی سے گزرتا ہوا مہینہ ہے ، ہاں وہی مہینہ جس کے روزوں کے بارے میں حدیثِ قدسی ہے کہ :
” روزہ میرے لیے ہے اور میں خود ہی اِس کا اجر دوں گا ”
مطلب رب نے سب عبادات کا اجر بتا دیا مگر روزے کا اجر چھُپا لیا اور کہا یہ میرا اور میرے بندے کا معاملہ ہے میں جتنا بھی چاہوں گا اُسے بڑھا چڑھا کے اجر دوں گا ، ذرا سوچیے جس روزے کا اجر رب نے اس طرح دینا ہو اُس کے کچھ تقاضے بھی تو ہوں گے ناں ۔۔۔
اب ہوا کیا ہم نے روزہ تو رکھ لیا مگر روزے کے تقاضوں کو یکسر بھول گئے ، ہم بھول گئے کہ ہمیں روزے کی حالت میں کن کن کاموں سے بچنا تھا ، ہم بھول گئے کہ ہمیں زیادہ سے زیادہ تلاوتِ قرآن پاک اور اذکار کی پابندی کرنی تھی ، ہم بھول گئے کہ ہمیں اپنی مناجات سے رب کو راضی کرنا تھا تاکہ وہ ہم پر آئی ہوئی آزمائش کو ختم کر دے ۔۔۔۔ ہمیں یاد رہا تو بس یہی کہ ارطغرل سیریل دیکھنا ہے تاکہ جذبہِ جہاد پیدا ہو ۔۔۔۔۔ ارے یہ کیسا جذبہِ جہاد ہے جس نے رمضان المبارک کی بابرکت ساعتوں کو کھا لیا ، یہ کیسا جذبہِ جہاد ہے جو رمضان المبارک کے مہینے میں لڑے گئے غزوؤں سے تو پیدا نہ ہوا اور اِس سیریل سے پیدا ہونے لگا ، یہ کیسا جذبہِ جہاد ہے کہ ہمارے مجاہدین روز دو ،دو ، چار کر کے شہید ہونے لگے اور ہمیں اُن کےلیے دُعا کی بھی فرصت نہ مل سکی ۔۔۔ ہمارے جوانوں کے ذہنوں میں تو حلیمہ کی ادائیں اور شاہینہ کی وفائیں ہی ثبت ہو کے رہ گئیں ، ہمارے جوانوں کو یاد رہیں تو بس شہناز خاتون کی عیاریاں اور عالیہ خاتون کی مکاریاں ۔۔۔
میں جانتی ہوں کہ میری بات بہت سے لوگوں کڑوی محسوس ہو گی مگر ساتھ یہ بھی دعوی سے کہتی ہوں کہ آپ کے ضمیر اِس بات کی گواہی دیں گے کہ سیریل کو دیکھتے ہوئے نوجوان کس چیز کی طرف زیادہ راغب ہوتے ہیں ،ارے دیکھنا ہی تھا تو رمضان کے بعد دیکھ لیتے مگر افسوس وہ لوگ جن کو اِس سیریل کی الف ب کا بھی نہیں پتہ تھا اُنہوں نے بھی عبادت سمجھ کے اِسے رمضان میں دیکھنا شروع کر دیا ۔۔۔۔ میں نے بغور مشاہدہ کیا کہ ہمارے نوجوان اِس سیریل کو دیکھنے کے بعد اِس میں موجود خواتین کا تذکرہ کرتے نظر آتے ہیں ، کچھ حضرات تو خواتین کی تصاویر اور ویڈیو کلپس اپنی ٹائم لائن پر لگا کر خود بھی لطف اندوز ہوتے ہیں اور دوسروں کو بھی کرتے ہیں ،،،،، میری بہنیں جنھوں نے کبھی اپنی تصویر فیس بک پر اپلوڈ نہیں کی تھی ،وہ بھی سیریل میں موجود خواتین کی تصاویر کو اپنی پروفائل پر لگا کر فخر محسوس کرتی ہیں ، عزیز بہنو!!! تھوڑا نہیں پورا سوچو کہ تمہاری پروفائل پہ لگی ایک غیر محرم عورت کی تصویر کو جب ہمارے جوان زوم کر کے دیکھیں گے اور اُن کے دِل میں بُرے خیالات پیدا ہوں گے تو کیا تمہیں ثواب ہو گا ؟؟؟
درست کہتے ہیں ہر چیز کے دو پہلو ہوتے ہیں ، اب یہ انسان پر منحصر ہے کہ وہ مثبت پہلو اپناتا ہے یا منفی ۔۔۔ جہاں تک میرا اندازہ اور مشاہدہ ہے تو ہمارا جھکاؤ اِس سیریل کے منفی پہلو کی طرف زیادہ ہے ، زیادہ دکھ اِس بات کا ہے کہ ہم نے اِس سیریل کو رمضانُ المبارک پر فوقیت دے دی ،،،، ارے سیریل تو رمضان کے بعد بھی دیکھا جاتا مگر کیا پتہ اگلا رمضان ہمیں نصیب ہو کہ نہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دردِ دِل سے التجا کرتی ہوں ابھی بھی وقت ہے رمضانُ المبارک کی با برکت ساعتوں کا زیادہ سے زیادہ فائدہ اُٹھا لیں ، سیریل کو دیکھنا فی الحال ترک کر دیں ، رمضان کے بعد یہی کام ہوتے رہیں گے ، ابھی رب کو منانے کا وقت ہے ،ایسا نہ ہو کہ یہ قیمتی ساعتیں گزر جائیں اور ہم خالی ہاتھ ، نامراد رہ جائیں ۔۔۔۔۔۔۔۔ تو آئیے رب کی بارگاہ میں سب ہاتھوں کو اُٹھاتے ہیں ، سر کو جھکاتے ہیں ، اُسے مناتے ہیں کہ وہ ہم سے وائرس جیسی آزمائش کو دور کر دے ،،،،، میدانِ کارزار گرم ہے ہمارے کشمیری بھائی روز اپنے رب کو شہادتوں کے نذرانے پیش کر رہے ہیں ، ہم اُن کےلیے کچھ اور نہیں کر سکتے تو کم از کم رب سے اُن کی فتح ، نصرت اور مدد کےلیے التجا تو کر سکتے ہیں ناں ،،، اللہ ہمارے حال پر رحم فرمائے اور ہمیں سیدھے رستے پہ چلنے کی توفیق عطا فرمائے ۔۔۔۔۔ آمین یا رب المجاہدین، یا ارحم الراحمین ، ارحم لنا








