پارلیمانی کمیٹی برائے کشمیر شہریار خان آفریدی نے پیر کو فاشسٹ ہندوستانی حکومت کی دھمکیوں اور پابندیوں کے باوجود مقبوضہ کشمیر میں دلیرانہ اور بے باک صحافت پر خراج تحسین پیش کیا ہے۔ شہریار آفریدی نے مقبوضہ کشمیر سے تعلق رکھنے والے صحافیوں کے ایک گروپ سے ملاقات کی۔ کشمیری میڈیا کے وفد میں محمد اشرف وانی ، غلام نبی بیگ ، رئیس احمد ، ہلال احمد ، شبیر حسین اور ظہور احمد صوفی شامل ہیں۔ اس موقع پر شہریار آفریدی نے کشمیری فوٹو جرنلسٹ مسرت زہرا کو پیٹر میکلر ایوارڈ جیتنے پر مبارکباد پیش کی۔ انہوں نے کہا کہ اگرچہ ہندوستانی حکومت نے مسرت زہرہ کے خلاف انسداد دہشت گردی کے الزامات کے تحت ایک مقدمہ درج کیا ہے لیکن بہادر صحافی نے جھکنے سے انکار کرکے صحافتی اقدار کا پاس رکھا ہے۔
شہریار آفریدی نے حال ہی میں پلٹزر ایوارڈ جیتنے والے مختار خان ، ڈار یاسین اور چنی آنند سمیت دیگر کشمیری صحافیوں کو بھی مبارکباد پیش کرتے ہوئے کہا کہ کشمیری صحافی مقبوضہ وادی میں بھارتی جبر و استبداد کے ذریعے مظلوم کشمیریوں کی نسل کشی کو دنیا کے سامنے ایکسپوز کررہی ہے. انہوں نے کہا کہ ہندوستانی حکومت کشمیر میں جاری جنگی جرائم چھپانے کیلئے ڈھونگ کرنے کی پوری کوشش کر رہی ہے اور کشمیری صحافی سچائی سامنے لانے کیلئے فقیدالمثال قربانیاں دے رہے ہیں۔
شہریار آفریدی نے کہا کہ درجنوں کشمیری صحافیوں کو ہراساں کرنے کی غرض سے پولیس تھانوں اور مقامی پولیس کے محکمہ فوجداری تحقیقات میں طلب جارہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس طرح کی کوششیں صرف آزاد صحافت پر بندشیں لگانے کے لئے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ کشمیر میں صحافیوں کے خلاف پہلی انفارمیشن رپورٹس (ایف آئی آر) کا اندراج اظہار رائے کےحق کوروکنے کی کوششوں کا حصہ ہے۔ یو اے پی اے جیسے مکروہ قوانین کے ذریعہ صحافیوں کوہراساں کرنے اوردھمکانے سے خوف اور انتقام کی فضا پیدا کی جارہی ہے۔ شہریار آفریدی نے کہا کہ مقبوضہ کشمیر میں کام کرنے والے صحافی گمنام ہیرو ہیں جو بھارتی قبضے کی مذمت کرتے ہوئے دنیا کو کشمیر کے بارے میں حقیقت بتا رہے ہیں۔
گوہر گیلانی اور مسرت زہرہ کے خلاف کشمیر سے متعلق حقائق سامنے لانے کے جرم پر دہشت گردی (یو اے پی اے) کے کیسز بنائے گئے۔ ایک اور صحافی قاضی شبلی کو صرف شوپیاں میں جعلی مقابلے کے حقائق کو اجاگر کرنے پر گرفتار کیا گیا تھا۔ صحافی آصف سلطان برہان وانی پر ایک تحریر لکھنے پرتقریبادوسال سے غیرقانونی نظربند ہیں۔ انہوں نے کہا کہ مقبوضہ جموں وکشمیر پولیس کے محکمہ انسداد انٹیلی جنس کے ذریعہ روزانہ کی بنیاد پر درجنوں صحافی طلب کیے جاتے ہیں اور وہ اپنے ذرائع ظاہر کرنے پرمجبور کئے جاتے ہیں۔یہ سب صرف صحافیوں پر دباؤ ڈالنے کے لئے ہے کہ وہ کشمیر میں جاری نسل کشی کے بارے میں حقائق کی اطلاع نہ دیں۔ آفریدی نے کہا کہ فاشسٹ ہندوستانی حکومت کو یہ سمجھنا چاہئے کہ کشمیری صحافیوں کو دباؤ کا نشانہ بنانے سے کوئی فائدہ نہیں ہو گا بلکہ اس فاشسٹ طرز عمل سے کشمیری صحافیوں کو حقائق کو منظرعام پر لانے کے لئے مزید ہمت اور توانائی ملے گی۔

انہوں نے عالمی صحافتی تنظیموں جیسی کمیٹی برائے پروٹیکٹ جرنلسٹس ، انٹرنیشنل فیڈریشن آف جرنلسٹس ، انٹرنیشنل کنسورشیم آف انویسٹی گیٹو جرنلسٹس ، جرنلسٹس ودآؤٹ بارڈرز اور دیگر عالمی صحافتی تنظیموں پر زور دیا کہ وہ کشمیری صحافیوں کو ہراساں کئے جانے کا نوٹس لیں اور اس مقبوضہ کشمیر میں جاری صحافتی بندشوں کے خاتمے کے لئے کارروائی کریں۔

Shares: