لاہور:جسٹس قاضی فائزعیسیٰ کے خفیہ اثاثوں کوسامنے لانے والے معاون خصوصی شہزاداکبرپراعتراضات پرسرسری جائزہ جاری ہے ، جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے سپریم کورٹ میں جمع کروائے گئے ریفرنس میں کہاہے کہ شہزاد اکبر مرزا کو کس نے ملازمت پر رکھا؟
کرپشن اوراثاثے چھپانے کے جرم میں سپریم کورٹ آف پاکستان کے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے پہلے سوال کا جواب یہ ہےکہ معاون خصوصی برائے احتساب شہزاد اکبرکی تعیناتی وزیراعظم نے آئین کے آرٹیکل 4(6) رولز آف بزنس 1973 کے تحت کی ، وزیراعظم نے اس آرٹیکل کی ذیلی دفعہ 1 اے کے شیڈول 5 اے کے تحت بھی اپنے اختیارات استعمال کرتے ہوئے مرزا شہزاد اکبرکو معاون خصوصی تعینات کیا
پہلا سوال بنیادی تھا اوراس کا جواب بھی آئینی ہے ، اس کے بعد باقی سوالات کا وجود نہیں رہتا مگرپھربھی اگرجائزہ لیا جائے تو باقی اکثرسوالات کے جوابات بھی پہلے سوال کے جواب میں موجود ہیں ،
کیا ایسیٹ ریکوری یونٹ کے چیئرمین کے عہدے کا اشتہار دیا گیا؟
ایسیٹ ریکوری یونٹ کے چیئرمین کا اشتہار اس لیے نہیں دیا گیا ،کیوں کہ وزیراعظم نے آئین کے آرٹیکل 4(6) رولز آف بزنس 1973 کے تحت یہ اضافی ذمہ داری تفویض کی ، وزیراعظم نے اس آرٹیکل کی ذیلی دفعہ 1 اے کے شیڈول 5 اے کے تحت شہزاد اکبر کو وفاقی وزیرکے برابر مقام دیا تھا تو اسی آئینی اختیار کے تحت وزیراعظم کسی شعبہ کے ذیلی ادارے کی اضافی ذمہ داری اس ادارے کے سربراہ کو تفویض کرسکتے ہیں ، اوروزیراعظم نے یہی کیا ، اس کے لیے اسی وجہ سے اشتہار دینے کی ضرورت محسوس نہیں کی گئی ،
کیا اثاثہ ریکوری کے چیئرمین کے لیے درخواستیں طلب کی گئیں؟
اس سوال کا جواب سوال نمبر دو کے جواب میں موجود ہے
کیا شہزاد اکبر مرزا کا انتخاب فیڈرل پبلک سروس کمیشن کے ذریعے ہوا؟
وزیراعظم کو آئین کے آرٹیکل 4(6) رولز آف بزنس 1973 کے تحت کی ، وزیراعظم نے اس آرٹیکل کی ذیلی دفعہ 1 اے کے شیڈول 5 اے کے تحت شہزاد اکبر کو وفاقی وزیرکے برابر مقام دیا تھا تو اسی آئینی اختیار کے تحت وزیراعظم کسی شخص کو اضافی ذمہ داری تفویض کرسکتے ہیں ،جب وزیراعظم کو آئین کے آرٹیکل 4(6) رولز آف بزنس 1973 کے تحت اخیتارحاصل ہے تو وہ کسی بھی شخص کو یہ ذمہ داری دے سکتے ہیں ، جس کے لیے نہ تو فیڈرل پبلک سروس کمیشن کے ذریعے تشہیر کی شرائط تھیں اورنہ ہی کبھی اس سے پہلے کبھی ایسے ہوا
ان تین چار سوالات کے جواب منفی میں ہیں تو کیسے ملازمت پر رکھا گیا؟ اس کا جواب پہلے سوال کے جواب میں موجود ہے
کرپشن اوراثاثے چھپانے کے جرم میں سپریم کورٹ آف پاکستان کے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے پہلے سوال کا جواب یہ ہےکہ معاون خصوصی برائے احتساب شہزاد اکبرکی تعیناتی وزیراعظم نے آئین کے آرٹیکل 4(6) رولز آف بزنس 1973 کے تحت کی ، وزیراعظم نے اس آرٹیکل کی ذیلی دفعہ 1 اے کے شیڈول 5 اے کے تحت بھی اپنے اختیارات استعمال کرتے ہوئے مرزا شہزاد اکبرکو معاون خصوصی تعینات کیا،وزیراعظم کو یہ اختیارپارلیمنٹ نے دیا ہے
شہزاد اکبر مرزا کی ملازمت کی شرائط اور ضوابط کیا ہیں؟
اس کی شرائط اور ضوابط معاون خصوصی برائے احتساب کی ذمہ داریاں ہیں اورایسیٹ ریکوری یونٹ کے چیئرمین کے طوراحتساب کے عمل میں بے نامی ، خفیہ اورظاہرنہ کئے گئے اثاثوں کی چھان بین کرنے والے اس یونٹ کی کارکردگی کو بہترکرنا اوراسے فعال کرنا شامل ہیں
کیا شہزاد اکبر مرزا پاکستانی ہیں؟
پاکستانی ہیں اسلام آباد کے نواحی علاقے گوجرخان میں پیدا ہوئے ، بنیادی تعلیم مقامی سکول سے حاصل کی ، اعلیٰ تعلیم کے لیئے لاہورتشریف لائے اور لاہور سے پھراعلیٰ تعلیم کے لیے برطانیہ گئے اور تعلیم مکمل کرنے کے بعد وطن واپس آگئے ،
غیر ملکی ہیں یا دہری شہریت رکھتے ہیں؟وہ غیر ملکی نہیں گوجرخان کے پیدائیشی ہیں ایک کسان کے بیٹے ہیںاوران کے والد محترم بھی ایک وکیل ہیں ،جہاں تک ان کی دہری شہریت کا معاملہ ہے وہ کچھ اس طرح ہے کہ وہ دہری شہریت نہیں رکھتے البتہ مرزا شہزاد اکبر کی جس خاتون سے شادی ہوئی ہے وہ جرمن نژاد بتائی جاتی ہیں ، جس کے ساتھ شادی برطانیہ میں دوران تعلیم طئے ہوئی اور یہ شادی بھی والدین کی رضا مندی کے ساتھ انجام کو پہنچی
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے جمع کرائے گئے جواب میں کہا ہے کہ اثاثہ ریکوری یونٹ قانونی نہ ہونے پر خرچ کی جانے والی رقم عوام کے پیسے کی چوری ہے،
یہ بات تو پہلے ہی طئے ہوچکی اور واضح ہوچکی کہ وزیراعظم نے اپنے اختیاراستعمال کرتے ہوئے یہ ذمہ داری سونپی ہے تو اس کے غیرقانونی ہونے کی بحث ہی فضول ہے ،
شہزاد اکبر نے سپریم کورٹ کے جج اور اہلِ خانہ کے بارے میں معلومات غیر قانونی طور پر اکٹھی کیں۔
مرزا شہزاد اکبر2005 سے 2008 تک بھی احتساب بیورمیں اس وقت کے چیئرمین نیب کی طرف سے ایک خصوصی اپریشنل ونگ کے سربراہ کے طور پرکام کرچکے ہیں، اس وقت بھی شہزاد اکبر کی ذمہ داریوں میں سے یہ تھی کہ وہ پاکستان اورسمندرپارپاکستانیوں کےکرپشن کے ذریعے بھیجے جانے والے پیسے کا کھوج لگائیں،یہ ان کی اسائنمنٹ ہے
معاون خصوصی اورایسیٹ ریکوری یونٹ چیئرمین کی حیثیت سے وہ کسی بھی پاکستانی شہری کی خفیہ اورنہ ظاہر کی جانے والی جائیداد کا پتہ لگانے کا حق رکھتے ہیں،اگرمنتخب وزیراعظم کے اثاثہ جات کی تحقیق اورتفتیش کی جاسکتی ہے تو دنیا کو انصاف ، دیانتداری کا درس دینے والے جج کی بھی کی جاسکتی ہے ، کوئی بھی آئین سے ماورا نہیں
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے سوال اٹھایا ہے کہ شہزاد اکبر مرزا نے اپنے اور اپنے خاندان کے بارے میں کچھ ظاہر کیوں نہیں کیا؟ شہزاد اکبر مرزا کا اِنکم ٹیکس اور ویلتھ سٹیٹس کیا ہے؟ شہزاد اکبر مرزا نے کب اپنے اِنکم ٹیکس ریٹرن داخل کرانا شروع کیے؟
معاون خصوصی برائے احتساب مرزا شہزاد اکبرنے اپنی تمام جائیداد ظاہر کی ہوئی ہیں ،وہ بہت جلد اپنے انکم ٹیکس اورویلتھ ٹیکس کے بارے میں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے سوالا ت کا مدلل جواب دیں گے