اسکی وجہ شیخ کی وہ ایمانی فراست بھی تھی جس کی بدولت انہیں حاضرین کی حقیقت کا فوراً اندازہ ہوجاتا تھا کہ کون تقویٰ کا خوگر ہے اور کس نے اپنے دل میں ظلمت کو جگہ دی ہے، دنیوی معاملات سے یکسر علیحدہ، علم و معرفت کے بادہ کش اور مولیٰ کی خلوت نشینی کرنے والے عموماً شعور و بصیرت کا وہ مقام حاصل کرلیتے ہیں جس پر فائز ہوکر باطنی کیفیات کا اندازہ لگانا مشکل نہیں ہوتا اور قلب و جگر کے احوال خود عیاں ہوکر سامنے آجاتے ہیں، متقدمین و متاخرین علماء میں اس کی بہت سی نظیریں موجود ہیں۔
شیخ کی کتاب حیات کا سب سے روشن ورق انکا علمی انہماک ہے وہ محدثین کے اس طبقے سے تعلق رکھتے تھے جو ساری کشتیاں جلا کر علمی میدان ہی کے مسافر بن جاتے ہیں اور اسے دنیا کی رنگینیوں سے کوئ سروکار نہیں ہوتا، انہوں نے جب حدیث رسول کو اپنا موضوع بنایا تو سستانے کا نام نہیں لیا، وادی کے ہر ٹیلے کو سر کیا، ہر پتھر کو الٹ کر دیکھا اور کارواں کی تلاش میں عرصۂ دراز تک صحرا نوردی کرتے رہے، انکا مطالعہ ذوق سے بڑھ کر فطرت و مزاج بن گیا تھا جس طرح مچھلی پانی کے بغیر زندہ نہیں رہتی اسی طرح انہیں بھی کتب کی ورق گردانہ کے بغیر چین نا آتا تھا، وہ زندگی کے شب و روز مطالعہ میں گذارتے تھے اگر کہیں سفر پر ہوتے تو سب سے پہلے نایاب کتب، نادر مخطوطات اور قدیم تصنیفات کو تلاش کرتے، وہ معرفت کی شراب پی کر گویا دنیا کو تو بھول ہی گئے تھے اسلئے پوری زندگی مجرد رہے اور ابن جریر طبری، ابو اسحاق شیرازی، امام نووی، حافظ ابن تیمیہ، عزالدین ابن جماعہ، شیخ طاہر الجزائری اور مولانا ابوالوفاء افغانی کے نقش قدم پر چلتے ہوئے انہوں نے علم دین کی خدمت کو شادی پر ترجیح دی، باری تعالیٰ کسی کی قربانی کو ضائع نہیں کرتا، اس لئے انہیں حدیث کی بزم میں ایسا بلند مقام عطا فرمایا کہ بڑے بڑے علماء کو جب کوئی اشکال پیش آتا تو وہ سب بلا تکلف ان سے رجوع کرتے تھے، استفادہ کرنے والے ان علماء میں ہمیں شیخ الحدیث حضرت مولانا زکریا کاندھلوی، مفکر اسلام حضرت مولانا سید ابوالحسن علی ندویؒ، محدث کبیر حضرت مولانا عبدالجبار اعظمی رحمۃ اللہ علیہ، محی السنۃ حضرت مولانا ابرار الحق صاحب ہردوئ جیسے بلند و بالا نام ملتے ہیں ۔
علمی رسوخ کی اصل آزمائش درس و تدریس کے منصب پر ہوتی ہے، یہ در اصل صلاحیت کو پرکھنے کی وہ عظیم کسوٹی ہے جو لائق کی لیاقت کو اجاگر کرکے اور نا اہل کے بودے پن کو فوراً آشکارا کردیتی ہے، اس بزم میں محنت سے جی چرانے والے کبھی نہیں ٹک پاتے اور نکمے پژمردگی کا شکار ہوکر اپنا وقار کھو بیٹھتے ہیں، یہاں تو اسی دیوانے کا سکہ چلتا ہے جو ذہین و باتوفیق ہونے کے ساتھ اولوالعزم ہو، وہ شاہینوں کی طرح پرواز کرکے ثریا کر کمندیں ڈالے اور ستاروں کی گزر گاہوں سے آگے بڑھ کر آسمان سے تارے توڑ لانے کا عزم رکھتا ہو، ایسا معلم جب مسند درس پر جلوہ افروز ہوتا ہے تو اسکے مطالعے کی وسعت، مضامین کے ورود، لہجے کے بانکپن اور فاتحانہ اسلوب کی بدولت علمی حلقوں میں تہلکہ مچ جاتا ہے، طالبان علوم نبوت حیران و ششدر ہوتے ہیں، معاصرین کو اچنبھا ہوتا ہے اور یہ معلم بالآخر زمانے پر چھا جاتا ہے، شیخ مرحوم بلاشبہ ایسے ہی معلم تھے، انہوں نے جب مظاہر علوم سہارنپور کی مسند حدیث کو رونق بخشی تو ہر سمت معرفت کا سماں بندھ گیا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اور بحث و تحقیق کے ایسے یاقوت و مرجان لٹائے کہ بخارا و سمرقند کی یادیں تازہ کردیں، ان کا درس فقہ الحدیث تک محدود نہیں نہ تھا بلکہ وہ ان اسلاف و متقدمین کے مسلک پر تھے جو منشاء نبوت کو سمجھانے کے لئے روایت و درایت کے ہر پہلو کی تشریح کرتے ہیں اور کہیں بیجا تعصب کا شکار نہیں ہوتے وہ تاویل بارد کے خلاف تھے لیکن مطلق آزادی کے بھی ہم نوا نہ تھے جو امت کو ائمہ اربعہ کی تقلید سے نکال کر اباحیت کی دلدل میں دھکیلنا چاہتی، شیخ کی یہ ضوفشانیاں آب و تاب کے ساتھ تقریباً پچاس سال تک ایمان و یقین کی سوغات تقسیم کرتی رہیں اور اس طویل عرصے میں ہندو پاک کے علاؤہ لندن و افریقہ اور عرب ملکوں کے بے شمار پروانوں نے آکر انکی شمع معرفت سے اپنے دامن کو روشن کیا ۔۔
علمی شخصیات عموماً زہدو قناعت کی خوگر ہوتی ہیں ان کا سرمایئہ حیات بحث و تحقیق کی وہ وادی ہے سبزہ زاروں میں کھو کر وہ دنیا کو بھول جاتے ہیں اور اسکی رنگینیوں کو کبھی میلی آنکھ سے بھی نہیں دیکھتے، شیخ مرحوم کی زندگی شہادت دیتی ہے کہ انہیں نبوی وراثت کا یہ مقام بھی حاصل تھا۔ وہ بچپن میں مفلوک الحال تھے، افلاس میں ہی پلے بڑھے اور تدریس کے ابتدائی زمانے میں کافی عسرت رہی لیکن کیا مجال کبھی بھی فقیری سے ذرا بھی گھبراہٹ ہوئ ہو اور وسعت و کشادگی کی بابت انہوں نے کبھی بھی سوچا ہو، دنیا دوسروں کے لئے وسیع ہو سکتی ہے لیکن مرحوم کا تعلق تو بس اس سے اتنا ہی تھا کہ زندگی کی ڈور کو برقرار رکھنے کے لئے بقدرِ ضرورت ہی سامان سفر ہو اس لئے انکی زندگی بس درسگاہ سے قیام گاہ تک محدود تھی، باقی عالم رنگ و بو کی رعنائیاں کیا ہوتی ہیں انہیں اس سے کوئ سروکار نہ تھا، افریقہ و لندن میں انکے معتقدین کی ایک بڑی تعداد موجود تھی جسے اللہ نے مالی وسعت کے ساتھ مشائخ کی خدمت کو حوصلہ بھی عطا کیا ان مخلصیوں نے کیا کیا نہ چاہا اور کون کونسی سبیلیں نہ نکالیں لیکن مرحوم نے انہیں دنیوی پھیلاؤ کی اجازت نہ دی، اگر انکے دل میں مادیت کا کوئ معمولی ذرہ ہوتا تو محبین کی ان عنایتوں کو وہ بھی آسانی سے فتوحات کا نام دے کر اپنا شیش محل تعمیر کر سکتے تھے لیکن نہیں کیونکہ انہیں معلوم تھا کہ یہ عزیمت کا نہیں خطرات کا راستہ ہے اور اس پر چل کر تقویٰ کا دامن بالآخر داغدار ہو ہی جاتا ہے، اس لئے شیخ کی زندگی تو بس اسی کمرے تک محدود رہی جو رہائش گاہ کم کتب خانہ زیادہ تھا، شاعر نے تو طبع آزمائی ہی کی ہوگی لیکن یہاں تو دیوانہ زبانِ حال سے کہ گیا۔

ہمیں دنیا سے کیا مطلب مدرسہ ہے وطن اپنا
مریں گے ہم کتابوں پر، ورق ہوگا کفن اپنا۔۔

دنیا کی رنگینیوں سے توجہ ہٹا کر ملاءِ اعلی سے وابستگی میں زہدو قناعت کا بہت کردار ہوتا ہے تاریخ میں جن عبقری علماء نے مثالی خدمات انجام دیں وہ اپنے درویشانہ مزاج کی بدولت ہی ذوق انابت تک پہنچے اور ان کا دل اس وقت تک ٹھنڈا نہیں ہوتا تھا جب تک آنکھیں اشکوں سے غسل نہ کرلیتیں وہ اپنے تمام تر اوصاف و کمالات کے باوجود خود کو حقیر و عاصی سمجھتے تھے اور انہیں نجات و مغفرت کی امید اپنے اعمال و اشغال کی بناء پر نہیں بلکہ الله کے فضل وکرم کی بنیاد پر تھی شیخ مرحوم کی زندگی کا مطالعہ کر نے والے شہادت دیتے ہیں کہ انہیں عبادت کا یہ ذوق مکمل طور پر حاصل تھا پورا دن درس و مطالعہ میں گزار کر جب وہ بستر پردراز ہوتے تو خلوت نشینی کا ذائقہ انہیں بہت جلد بستر چھوڑنے پر مجبور کر دیتا تھا پھر وہ ہوئے اور ان کا مولا…ان کا بیشتر حصہ آه و بکاء میں گزر جاتا اور اس راز و نیاز کی کسی کو خبر تک نہ ہوتی وہ اس باب میں بھی واقعتا اسلاف ومتقدمین کی مثال تھے۔
@sabirmasood_

Shares: