شیخ محمد یونس رحمۃ اللہ علیہ ایک موہوب شخصیت آخری قسط (4) تحریر: محمد صابر مسعود

0
44

علم وفضل کی جامعیت کے بعد علوم نبوت کی مخلصانہ خدمات اگر کسی کو نصیب ہو جائیں تو یہ ایمانی زندگی کی معراج ہے اور بارگاہ ایزدی سے اسے مقبولیت کا پروانہ ملتا ہے، یہ آسمانی مقبولیت ملاء اعلی سے گزر کر سماء دنیا تک آتی ہے پھر اسے فرشتے عارفین و صلحاء کے قلوب میں القاء کر دیتے ہیں اور دنیا کے تمام مومنین اس سے محبت کرنے لگتے ہیں شیخ مرحوم نے جب دنیا کو ٹھکرا کر حدیث رسول کی تشریح کے لئے اپنی زندگی کو وقف کردیا تو اللہ تعالیٰ نے سنت الہی کے مطابق انہیں ایسی
محبوبیت نصیب فرمائی جو کم از کم دور حاضر میں بہت کم لوگوں کو ملی ہے وہ علماء کی آنکھوں میں بسے، طلباء کے دلوں میں سمائے اور مخلصین کے قلب و جگر میں اتر گئے، ہر ایک ان پر فدا ہوتا، ہر کوئی ان کا قرب ڈھونڈتا اور جس پر ان کی توجہ پڑ جاتی وہ انکے فیضان نظر سے یکا یک لہلہا اٹھتا اگر وہ کسی علاقے کا دورہ کرتے تو اسی شان سے گویا وہ شمع ہیں اور سب ان کے پروانے، وہ جہاں بھی جاتے حدیث اور سنت کی بہار آجاتی، مخلصین سیلاب کی طرح امنڈتے، حیرت ہوتی ہے کہ کیسی عجب
مقبولیت تھی کہ وہ سر عام بڑے بڑے علماء کو ڈانٹتے لیکن کسی کو ذرا بھی ناگواری نہ ہوتی بلکہ وہ اس تادیب کو بھی اپنے لئے سعادت سمجھتے انہیں سر پر بٹھا لیتے اور اپنی پلکوں پر سجا لیتے ،تمام مقتدر شخصیات سے امت نے ہر دور میں اتنی ہی محبت کی ہے۔۔
تاریخ نبوت ورسالت بتاتی ہے کہ ان الانبياء لم يورثوا دينارا ولا درهما و انما ورثوا العلم کہ جب بھی دنیا سے
ہے کسی نبی نے رخت سفر باندھا تو میراث میں انہوں نے مال و دولت نہیں بلکہ علم و تقویٰ چھوڑا رسول الله صلى الله عليہ وسلم نے مذکورہ بالا حدیث کے ذریعہ اسی حقیقت کی وضاحت کی ہے، علماء چونکہ انبیاء کے وارث ہیں اس لئے مرتے وقت ان کے پاس اتنا ہی سرمایہ ہوتا ہے جو تجہیز و تکفین کے لئے کافی ہو سکے، شیخ مرحوم نے دنیا کو کبھی منہ نہیں لگایا، حجاز کے سفر میں وہ
تمام ہدایا حرمین ہی میں تقسیم کردیتے تھے ایک مرتبہ ریال کا اچھا خاصا ڈھیر لگ گیا، شیخ نے ان پر نظر غلط بھی نہ ڈالی اور جب وہاں سے رخصت ہوئے تو اس شان کے ساتھ کہ دامن جھاڑا اور میزبان کو سب کچھ صدقہ کرنے کی تلقین کی، انتقال سے چند گھنٹے قبل بھی انہوں نے اچھی خاصی رقم صدقہ کی اور صبح جب وہ سفر آخرت پر روانہ ہوئے تو نبی کی سنت کے عین مطابق کتابوں کی صورت میں علم کا اتنابڑا ذخیرہ چھوڑا جس کی مثال خال خال ہی کہیں نظر آتی ہے۔
شیخ مرحوم علمی حلقوں تک محدود تھے اور ان کا عوام سے کوئی خاص تعلق نہ تھا لیکن انتقال کی خبر ملی تو کیا علماء اور کیا طلباء ہر ایک جنازے میں شرکت کے لئے دیوانہ وار دوڑ پڑا اور عصر سے قبل مسلمانوں کا ایسا سیلاب نظر آیا کہ سہارنپور کی تاریخ میں جسکی مثال ملنا مشکل ہے گالیاں پٹ گئیں، میدان لبالب بھر گئے، کہیں تل دھرنے کی جگہ نہ تھی شہر آج بڑی حسرت کے ساتھ اپنی تنگ دلی کا شکوہ کر رہا تھا، فقیہ الاسلام حضرت مولانامفتی مظفر حسین صاحب نور اللہ مرقدہ کے
جنازے میں تین لاکھ مسلمانوں نے شرکت کی تھی لیکن واقفین کے نزدیک آج یہ تعداد بڑھ کرمحتاط اندازہ کے مطابق پانچ لاکھ تک پہنچ گئی، ہمارے ناقص مطالعے کی روشنی میں یہ اس صدی کا شاید سب سے بڑا جنازہ تھا کیوں پورے برصغیر میں تین لاکھ سے بڑا دعویٰ ہماری نظروں سے نہیں گزرا، حضرت امام احمد بن حنبل نے مشایعین کی کثرت کو قبولیت کی علامت قراردیا ہے اس لئے علماء اور مشائخ کے جنازوں کا ازدحام ان کی سوانح حیات کا ایک روشن باب تصور کیا جاتا ہے۔ اللہ نے
شیخ مرحوم کو اس نعمت سے بھی نوازا اور ان کا آخری سفر بھی ایک مثال بن گیا، باری تعالی مرحوم کو خوب نوازے اور یہاں کی تمام محرومیوں کا صلہ آخرت میں عطافرمائے اس کے خزانوں میں کوئ کمی نہیں۔۔۔

یہ ہیں شیخ کے امتیازات وخصوصیات کے چندنقوش، جہاں تک ان کے اوصاف و کمالات کا سوال ہے تو ان کا احاطہ وہی قلمکار کر سکتا ہے جس نے مرحوم کو بہت قریب سے دیکھا ہو اور ان کی زندگی کے شب وروز پر اس کی گہری نظر ہو ۔۔۔

ہوئے نامور بے نشاں کیسے کیسے
زمیں کھا گئی آسماں کیسے کیسے۔۔

عجب قیامت کا حادثہ ہے، آستیں نہیں ہے۔۔۔۔۔
زمیں کی رونق چلی گئی ہے، اُفق پہ مہر مبیں نہیں

تری جدائی سے مرنے والے، وہ کون ہے جو حزیں نہیں ہے
مگر تری مرگ ناگہاں کا اب تک یقین نہیں ہے

‎@sabirmasood_

Leave a reply