شور اور شعور .تحریر:فروا منیر
شور اور شعورمیں واضح فرق "ع” کا ہے جس کا مطلب ہے علم۔ ہر وہ بات جو بغیر علم کے ہو شور کہلاتی ہے۔
ہر اونچی آواز کا مطلب یہ نہیں کہ وہ حق کی ہی آواز ہو بغیر دلیل اور بغیر علم کے کی جانے والی آواز اس خالی برتن کی مانند ہے جو کہ صرف شور مچاتا ہے۔
بات کرتے ہیں اس ملک کے مقدس ایوان اور عوامی نمائیندوں کی جو اس عوام کا اعتماد ووٹ کے نام پر اس لیے حاصل کرتے ہیں کہ وہ عوام کی نمائیندگی کریں گے اور عوام کے مسائل کو نیشنل اسمبلی کے ایوان میں پیش کریں گے ۔
نیشنل اسمبلی وہ ایوان کےجس میں اس ملک کے پڑھے لکھے افراد عوام کی نمائیندگی کرتے ہیں
مگر ٹھرئیے!
یہاں تو منظر ہی کچھ اور ہے عوام کی مسائل کی بجائے ہر کوئی اپنے مسائل حل کرنے میں لگا ہے۔
کہیں سے سیٹیاں گونج رہی ہیں ،کہیں سے تالیاں
عوامی نمائیندے عوامی مسائل سے گتھم گتھا ہونے کی بجائے آپس میں گتھم گتھا ہیں
ہر کوئی ایک دوسرے کو چور کہہ رہا ہے۔ اگر سب ہی چور ہیں تو چوروں کا یہاں کیا کام؟؟
جناب شعور سے "ع” غائب ہو چکا ہے "ع” سے علم جاتے ہی "ع” سے عقل بھی جانے لگی اور بس شور شور رہ گیا۔
پوری دنیا نے دیکھا کہ کس طرح اسلامی جمہوریہ پاکستان کے نمائیندے عوامی نمائیندگی کر رہے ہیں
تو کیا دنیا سوچنے پرمجبور نہ ہو گی کہ اگر نمائیندے ایسے تو عوام کیسی ہوگی؟
اسلاف کی میراث بچانے والے مال بچانے میں مصروف ہیں
خدارا اپنے مفادات سے باہر نکل کر اس ملک کے مفادکا سوچئے۔
اگر یہی حال اس ملک کے حکمرانوں کا ہے تو اس عوام کا اللہ ہی خافظ۔








