خدا کا شکر ادا کرنا سیکھیں تحریر: نعمان سرور


اسٹریس ہائپر ٹینشن ڈپریشن ٹینشن آجکل اس طرح کے مسائل ہر انسان کو درپیش
ہیں بڑے دکھ کی بات ہے ہمارے معاشرے میں نفسیات اور احساسات کو زیادہ
اہمیت نہیں دی جاتی جب کہ ہر دوسرا انسان اپنے اندر ایک جنگ لڑ رہا ہے
بعض اوقات کچھ یادیں تکلیفیں الجھنیں انسان کو اندر ہی اندر توڑ کر رکھ
دیتی ہیں اور انسان پر مایوسی اور دل شکستگی کی کیفیت طاری ہو جاتی ہے
انسان اپنی توجہ دنیا کی ہر چیز سے ہٹا کر ایک نقطے پر مرکوز کر دیتا وہ
ہے  بے سکونی ,مایوسی ,نا امیدی ,چڑچڑا پن۔

ڈپریشن کا زیادہ شکار حساس لوگ ہوتے ہیں جو دوسروں کو خوش کرتے کرتے اپنی
زات کو فراموش کر دیتے ہیں روزمرہ کی زندگی میں دیکھیں تو ایک طالب علم
سے لے کر نوکری کرنے والا انسان کسی نہ کسی ذہنی دباؤ کا شکار ہے کچھ تو
کام کا تحاشہ لوڈ طویل دورانیے کی نوکری بھی اچھے خاصے انسان کو چڑ چیڑا
بنا دیتی ہے۔

کیا کبھی کسی نے سوچا کہ انسان ذہنی مریض کیوں بنتا ہے کیا وجہ ہے دن بدن
انسان اپنی زندگی سے مایوس ہو جاتا ہے کبھی سوچا اذیت کی وہ کیا انتہا ہو
گی کہ انسان اس حد تک بے بس ہو جاتا کہ وہ خودکشی تک کرنے پر موجود ہوتا
ہے ہمارے معاشرے کی یہ بد قسمتی ہے کہ ہم میں سے اکثر لوگ اس کو بیماری
ہی نہیں سمجھتے ہمارے نزدیک بیماری وہی ہے جو نظر آجائے اور جب تک ہمیں
یہ بات سمجھ آتی ہے بہت دیر ہو چکی ہوتی ہے۔

عموماً دیکھا گیا ہے ڈپریشن عام انسان سے زیادہ پڑھے لکھے، مایوس، نوکری
پیشہ، بیمار ،تنہائی میں مبتلا لوگوں میں زیادہ پایا جاتا ہے۔ کچھ لوگ تو
محبتوں سے محروم ہوتے ہیں احساس محرومی ان کی رگوں میں سرائیت کر جاتی ہے
جو تکلیف اور ناامیدی کا باعث بنتی ہے یا یہ کہہ لیں کبھی کبھی انسانی
رویے، ان کے کہے کچھ الفاظ درد کا باعث بنتے ہیں غیروں کے الفاظ انکے
رویے بھی انسان کسی حد تک سہہ لیتا ہے مگر جب بات دل سے جڑے رشتوں کی
ہوتی ہے تو وہ کٹ کر رہ جاتا ہے  یا جب اپنے چاہنے والوں سے رخصت ہونا
پڑتا ہے تو انسان کے پاس بس ان کی یادیں ہوتی ہیں جو اس کا جینا محال کر
دیتی ہیں کبھی کوئی حالات کا مارا ہوتا نفرت کا ڈسا ہوتا یا محبت کا لوگ
کس تکلیف سے گزر رہے ہوتے ہیں کسی کو احساس نہیں ہوتا کیوں کہ ہمارے
معاشرے میں درد پر مرہم رکھنے کی ریت نہیں بلکہ دوسرے کے دکھوں کو لوگ
ہرا کر کے خوشی محسوس کرتے ہیں  ایسا نفسا نفسی کا دور ہے کسی کی نیند
ٹوٹے یا خواب دل ٹوٹے یا ہمت کسی کو کوئی پرواہ نہیں لوگ اپنی دنیا میں
ہی مست رہتے۔

 ایسا بھی دیکھا گیا ہے کبھی کبھی انسان ڈپریشن خود پر بھی مسلط کر لیتا
ہے وجہ ہوتی ہماری لاشعور میں پلنے والی تکلیفیں, یادیں,تلخیاں اور یہ
پھر ہماری زندگی کے ہر حصے پر اثر انداز ہوتی ہیں  انسان نہ ٹھیک سے کوئی
کام کر سکتا ہے نہ کوئی فیصلہ لے پاتا ہے بس مایوسی کے دلدل میں دھنستا
چلا جاتا ہے۔

بہت سی نامور شخصیات کے بارے میں سنا ہو گا دولت عزت شہرت  دنیا کی ہر
آسائش ہونے کے باوجود اپنی زندگی سے مایوس ہو کر سکوں کی تلاش میں نشے کی
لت میں پڑ جاتے یا اتنے بیزار ہو جاتے خودکشی پر مجبور ہو جاتے اس طرح کی
تمام برائیوں کی جڑ  ایمان کی کمی ہے انسان در بدر سکون کی تلاش میں رہتا
ہے مگر انسان یہ سمجھنے سے قاصر ہوتا ہے کہ سکون کا تعلق دل سے ہوتا ہے
دل اس کا مطمین ہو گا تو سکون خود بخود اس کے اندر سرایت کر جائے گا مگر
سوال یہ ہے کہ دل مطمئن کیسے کریں تو اس کا آسان جواب بیشک اللّٰہ کے ذکر
میں ہی سکون ہے یعنی اللّٰہ پاک کو یاد کرنا اسکی عبادت کرنا اس کے ذکر
کو اسکے احکامات کو اپنی روح میں ڈھالنا ہے۔ جس سکون کو ہم دنیا بھر میں
ڈھونڈنے پھرتے ہیں  وہ تو ہماری شہہ رگ سے بھی قریب تر ہے۔

 اگر آپ اپنی زندگی میں ﻣﺜﺒﺖ ﺍﻧﺪﺍﺯ ﻓﮑﺮ ﺍﭘﻨﺎﻧﮯ ﮐﮯ ﻋﺎﺩﯼ بن جائیں ﺗﻮ کسی
قسم کا ﺩﺑﺎﻭٔ ﺍٓﭖ ﮐﺎ ﮐﭽﮫ ﻧﮩﯿﮟ ﺑﮕﺎﮌ ﺳﮑتا منفی سوچوں خیالات سے دور رہیں
ہر حال میں اللّٰہ پاک کا شکر ادا کریں اپنے لیے جینا سیکھیں یہ آپ خود
پر منحصر ہے کہ آپ  اپنی ذہنی پریشانی سے خود کو اس سے کیسے باہر نکالتے
ہیں یہ آپ نے طے کرنا کہ آپ کے اندر کون سے صلاحیت ہے جسے بروئے کار لا
کر خودکو ہلکا پھلکا محسوس کر سکتے ہیں جیسے کہ اچھی کتابیں پڑھیں
باغبانی کریں وغیرہ وغیرہ یا اپنے والدین سے بات کریں نہیں ہیں تو کسی
قریبی دوست سے اپنے دل کی بات کریں یقین کریں آپ واقعی خود کو ہلکا پھلکا
محسوس کریں گے اپنے اندر خوشگوار تبدیلی محسوس کریں گے۔

  کبھی کبھی ایسا ہوتا ہے میں خود بہت مایوس ہو جاتا ہوں شدید ڈپریشن
ہوتا ایسا لگتا جیسے سر درد سے پھٹ جاۓ گا ایسے میں  سورہ رحمن کی تلاوت
سنتا ہوں سکون جیسے نس نس میں اتر جاتا ہے۔کبھی ایسا بھی ہوتا میں  اپنے
خیالات کو اپنی پریشانیوں کو کاغذ پر اتار کر دل ہلکا کر لیتا ہوں دنیا
میں شاید میرے جیسے بے شمار لوگ ہوں کہ جن کو سنے والا سمجھنے والا کوئی
نہیں ہوتا تو انکے پاس بس کاغد اور قلم کا سہارا ہوتا۔ یہ میرا ذاتی
تجربہ ہے اور میں نے بہت حد تک فضول سوچنا اور ٹینشنز پالنا ختم کر دی
ہیں بجائے ہم منفی ردعمل اپنائیں مثبت چیزیں کر کے دیکھیں بہت حد تک بہتر
محسوس کریں گے۔۔!!

ٹویٹر اکاؤنٹ

‎@Nomysahir

Comments are closed.