سلسلہ امہات المؤمنین: 1؛حضرت خدیجہ رضی اللّٰہُ عنھا۔ تحریر: جویریہ بتول

سلسلہ امہات المؤمنین:
1)۔حضرت خدیجہ رضی اللّٰہُ عنھا۔
تحریر:(جویریہ بتول)۔

رسول اللّٰہ کی بیویاں امہات المؤمنین ہیں۔۔۔
ان کی سیرت و کردار تمام مسلمانوں کے لیئے بالعموم اور خواتین کے لیئے بالخصوص مشعل راہ ہے۔۔۔
ہماری حقیقی فلاح اسی بات میں پوشیدہ ہے کہ ہم اپنی ماؤں کی سیرت سے آگہی حاصل کریں اور ان کے عظیم ترین کردار کو اپنانے کی کوشش بھی کریں۔۔۔مگر افسوس کی بات یہ ہے کہ ہم میں سے اکثریت کو اپنی ماؤں کے نام تک بھی مکمل یاد نہیں ہوتے،جبکہ فلمی دنیا کے کرداروں کے لفظ بہ لفظ نام ہمارے حافظے میں موجود رہتے ہیں۔۔۔؟
رسول اللّٰہ صلی اللہ علیہ وسلم کی عائلی زندگی ہماری اصلاح کا بہترین نمونہ ہے۔۔۔بہترین رفیقِ حیات کا نقشہ ہے۔۔۔
اس سلسلہ میں ہم اپنی ماؤں۔۔۔۔امہات المؤمنین کے بارے میں کچھ جانیں گے۔۔۔ان شآ ء اللہ۔
پیارے نبی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے جب پہلی شادی کی تو آپ پچیس سال کے بھر پور جوان تھے،لیکن آپ نے نکاح کے لیئے جس خاتون کا انتخاب کیا،ان کی عمر چالیس سال تھی۔۔۔
معروف ادیب اور عظیم نعمت خواں مرحوم نعیم صدیقی نے اس بات کو کتنے خوب صورت انداز میں لکھا ہے کہ:
"یہ نوجوان رفیقۂ حیات کا انتخاب کرتا ہے تو مکہ کی نو عمر اور شوخ و شنگ لڑکیوں کو اک ذرا سا خراج نگاہ دیئے بغیر ایک ایسی عورت سے رشتۂ مناکحت استوار کرتا ہے کہ جس کی بڑی خوبی یہ ہے کہ وہ خاندان اور ذاتی سیرت و کردار کے لحاظ سے نہایت اشرف خاتون ہے،اس کا یہ ذوق انتخاب اس کے ذہن،روح اور مزاج کی گہرائیوں کو پوری طرح نمایاں کر دیتا ہے۔۔۔”
ام المؤمنین حضرت خدیجہ رضی اللّٰہُ عنھا مکہ معظمہ میں پیدا ہوئیں،جاہلیت میں آپ کا لقب طاہرہ تھا۔
آپ قریش کے شریف و معزز خاندان سے تعلق رکھتی تھیں۔۔۔
آپ کا اور رسول اللہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم کا خاندان ایک ہی تھا۔۔۔یعنی قریش۔
حضرت خدیجہ کا قبیلہ بنو اسد اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ کا قبیلہ بنو ہاشم تھا۔
یہ بات تو سب کو معلوم ہے کہ قریش خاندان عرب میں ممتاز خاندان سمجھا جاتا تھا۔۔۔ام المؤمنین حضرت خدیجہ کے خاندان میں لڑکیوں کی پیدائش کو کئی دیگر قبائل کی طرح برا نہیں سمجھا جاتا تھا بلکہ ان کی پرورش محبت سے کی جاتی تھی۔۔۔
آپ کا گھرانہ تجارت کے پیشہ سے وابستہ تھا۔
آپ کے والد تجارت کرتے تھے اور اپنا مال بیرون ممالک لے جاتے اور وہاں سے سامان حجاز خرید کر لاتے۔
حضرت خدیجہ رضی اللّٰہُ عنھا نے بھی تجارت کو اختیار کیا۔۔۔
آپ محنتی اور امانت دار لوگوں کو اپنا مالِ تجارت دے کر فروخت کرنے بھیجا کرتی تھیں۔۔۔یعنی حضرت خدیجہ کے کردار کی روشنی میں مسلمان خواتین کاروبار کا طریقہ سمجھ سکتی ہیں کہ ام المؤمنین حضرت خدیجہ کس طریقے سے تجارت کرتی تھیں۔۔۔؟
آپ کی پہلے دو شادیاں ہوئی تھیں،اپنے دوسرے شوہر کی وفات کے بعد آپ نے قریش کے کئی سرداروں کے پیغامِ نکاح مسترد کر دیئے۔۔۔
یہاں تک کہ وہ رحمت اللعالمین کے نکاح میں آئیں۔۔۔۔

حضرت خدیجہ رضی اللّٰہُ عنھا نے آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم کے لیئے ہر قربانی پیش کی،
اپنا تن من دھن،مال و زر آپ کی خدمت اقدس میں حاضر کر دیا اور ایثار کا مثالی نمونہ پیش کیا۔
اپنا مال آنحضرت صلی اللّٰہ علیہ وسلم کی خدمت میں پیش کر کے اس کے خرچ کا اختیار بھی آپ صلی اللہ علیہ کو دے دیا۔۔۔
یہی وجہ ہے کہ
حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنھا فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم جب بھی حضرت خدیجہ کا ذکر کرتے تو بہت زیادہ توصیف کرتے،
حضرت عائشہ فرماتی ہیں،مجھے غیرت آئی تو میں نے فرمایا:
آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم اکثر ایک سرخ مسوڑھوں والی عورت کا ذکر کرتے رہتے ہیں،حالانکہ اللہ نے آپ کو اس سے بہتر بیوی عطا کی ہے یعنی(حضرت عائشہ)۔۔۔
آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے فرمایا:
اللّٰہ تعالی نے مجھے اس سے بہتر بیوی عطا نہیں کی،وہ مجھ پر اس وقت ایمان لائیں،جب سب لوگوں نے میرا انکار کیا۔
اس نے اس وقت میری تصدیق کی،جب لوگوں نے مجھے جھٹلایا۔
اس نے اپنے مال و دولت سے میری مدد کی جب دوسروں نے مجھے محروم کیا۔
اور اللّٰہ تعالی نے مجھے اس سے اولاد کی نعمت عطا کی،جبکہ دوسری بیویوں سے اولاد نہیں ہوئی۔
(رواہ احمد)۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت خدیجہ رضی اللّٰہُ عنھا کی موجودگی میں،ان کی پچیس سالہ ازدواجی زندگی میں کوئی اور نکاح نہیں کیا۔۔اور یہ عرصہ انتہائی محبت و الفت سے بھر پور گزرا۔۔۔
اسی تعاون بھری زندگی کا نتیجہ تھا کہ آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم عمر بھر ان کی نیکیاں بیان کرتے رہے۔۔۔
کفار مکہ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات سے بدکنے لگے اور ان کا کچھ اثر نہ لیا،تو اس سخت اذیت کے ماحول میں حضرت خدیجہ آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم کی ڈھارس بندھاتیں۔
اس صاحبہ فراست خاتون نے ہر تکلیف کے موقع پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تسلی و تشفی میں کوئی کسر اٹھا نہ رکھی۔
نزول وحی کے وقت گھبراہٹ کے موقع پر آپ رضی اللّٰہُ عنھا نے ان الفاظ میں رسول اللہ کو تسلی دی کہ:
اللّٰہ تعالی آپ کو ہر گز رسوا نہیں کرے گا،آپ صلہ رحمی کرتے ہیں،یتیموں،ناداروں کا خیال رکھتے ہیں،مہمان نوازی کرتے ہیں،مصیبت زدگان کی مدد کرتے ہیں۔۔۔ !!!
اپنے مال سے تکلیف زدہ مسلمانوں کاخیال رکھنے ،اسلام کی راہ میں عظیم قربانی اور کردار ادا کرنے والی ام المؤمنین حضرت خدیجہ رضی اللّٰہُ عنھا کے کردار کی اللہ رب العزت نے کتنی قدر دانی کی کہ
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جبریل علیہ السلام رسول اللہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور کہا اے اللہ کے رسول صلی اللّٰہ علیہ وسلم !
یہ خدیجہ ہیں جو کھانے کا برتن آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم کے پاس لا رہی ہیں،
جب وہ آپ کے پاس آئیں تو انہیں ان کے رب کی طرف سے سلام کہیں اور میری طرف سے بھی۔
اور انہیں جنت میں موتیوں کے محل کی خوشخبری دیجیئے،جس میں شوروغل ہے اور نہ کوئی تکلیف و تھکاوٹ۔۔۔”
(صحیح بخاری)۔
دنیا میں جنت کی بشارت پانے والی پہلی خاتون سے رسول اللہ کو بہت زیادہ محبت تھی۔۔۔
آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم حضرت خدیجہ کے رشتہ داروں کی عزت کیا کرتے تھے،آپ کی سہیلیوں کو عزت و احترام کی نگاہ سے دیکھتے،آپ کی سہیلیوں کے گھروں میں کھانا بھجواتے۔
حضرت خدیجہ سب سے پہلے ایمان لائیں،مسلمان بنیں اور سب سے پہلے پہلی وحی کو تسلیم کیا۔۔۔ان منفرد اعزازات کی حامل،اپنی غمگسار و ہمدرد بیوی کی وفات پر آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم بہت رنجیدہ ہوئے،
اور اس صدمہ کی ہی مناسبت سے نبوت کا دسواں سال عام الحزن کہلایا۔۔۔ !!!
آپ رضی اللّٰہُ عنھا نے 10 رمضان المبارک 10 نبوی میں وفات پائی۔۔۔
اولاد میں بیٹے کم عمری میں ہی اللہ کو پیارے ہو گئے۔۔۔
اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم و حضرت خدیجہ رضی اللّٰہُ عنھا کی چاروں بیٹیاں،زینب،رقیہ،ام کلثوم اور حضرت فاطمہ رضی اللہ عنھن تھیں جن میں سے حضرت زینب ابو العاص،حضرت رقیہ و ام کلثوم حضرت عثمان رضی اللہ عنہ اور حضرت فاطمہ رضی اللہ عنھا حضرت علی رضی اللہ عنہ کے نکاح میں تھیں۔
(رضی اللہ عنھا)۔
اللّٰہ تعالی ہم مسلمان مردوں،عورتوں کو اپنی زندگیاں اپنے پیارے رسول حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور ام المؤمنین حضرت خدیجہ رضی اللّٰہُ عنھا کے عظیم کردار کی روشنی میں گزار کر ابدی فلاح سے ہمکنار ہونے کی توفیق بخشے۔
دین اسلام کی ترویج و اشاعت کی خاطر ایسے ہی جذبۂ قربانی سے مالا مال فرمائے۔آمین۔
لا ریب امت کے لیئے اسوۂ حسنہ میں بہترین ازدواجی تعلقات کی یہ انتہائی روشن مثال ہے۔
اللّٰہ ہمارے احوال کی بھی اصلاح فرما دے اور ہر شوہر،بیوی سیرتِ طیبہ کی راہ نمائی میں اپنا اپنا کردار سمجھ سکیں۔۔۔۔ !!!!!

Leave a reply