سلسلہ امہات المؤمنین:
حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللّٰہُ عنھا۔
(تحریر:جویریہ بتول)۔
حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللّٰہُ عنھا کےلقب صدیقہ اور حمیرا تھے۔
آپ ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کی صاحبزادی تھیں۔۔۔
اور حضرت عائشہ اس خوش نصیب گھرانے سے تعلق رکھتی تھیں کہ جس گھر پر سب سے پہلے اسلام کی نورانی و ٹھنڈی کرنیں پڑی تھیں۔۔۔
یوں حضرت عائشہ وہ ہیں جن کا شروع سے ہی کبھی کفر وشرک کے ماحول سے واسطہ نہیں رہا۔۔۔
آپ کے والد گرامی کی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بے مثال محبت اوراسلام کے لیئے جذبۂ قربانی کسی سے پوشیدہ نہیں ہے۔۔۔۔جنہوں نے ہر کڑے موقع پر رسول اللہ کا ساتھ دیا،
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ مجھے کسی کے مال سے اتنا فائدہ نہیں ہوا،جتنا ابو بکر کے مال سے ہوا(رضی اللہ عنہ)۔
سب سے پہلے اسلام قبول کر کے اپنا سارا مال اللّٰہ کی راہ میں دے دینے والے صحابئ رسول پر اللہ تعالی کی بے شمار رحمتیں ہوں آمین۔
حضرت عائشہ رسول اللہ کی وہ واحد بیوی ہیں جو کنواری تھیں۔
آپ کو کئی ایک اعزازات حاصل ہیں جن کا آگے چل کر ذکر آئے گا ان شآ ء اللہ۔
حضرت عائشہ کا نکاح بہت کم عمری میں رسول اللہ سے ہوا تھا،جبکہ ان کی عمر چھ،سات برس تھی۔۔۔
رسول اللّٰہ صلی اللہ علیہ وسلم جب تیرہ نبوی میں اپنے یارِ غار حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کے ساتھ مکہ سے مدینہ کی طرف ہجرت کرنے لگے تو حضرت ابو بکر کے اہل خانہ مکہ میں کفار مکہ کے نرغے میں ہی تھے۔۔۔
غرض جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور ابو بکر صدیق اللہ کے حکم سے ہجرت کرکے مدینہ آن پہنچے اور آہستہ آہستہ معاملات سنبھل گئے تو آپ نے ام رومان، عائشہ و اسماء رضی اللّٰہُ عنھن کو مدینہ بلا لیا۔۔۔
مدینہ کی آب و ہوا سے بہت سے لوگ بیمار ہو گئے اور حضرت عائشہ بھی بیمار ہو گئیں۔۔۔
نو سال کی عمر میں آپ کی رخصتی ہوئی اور یہ تقریب انتہائی سادہ و ایمان افروز تھی۔۔۔
حضرت عائشہ اپنی سہیلیوں کے ساتھ کھیلنے میں مصروف تھیں،آپ کی والدہ نے آپ کو اپنے پاس بلایا اور چہرہ دھویا۔۔۔
انصاری عورتوں نے آپ کو تیار کیا اور ام رومان آپ کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حجرے میں چھوڑ آئیں۔۔۔
جہانوں کے لیئے رحمت بن کر آنے والے رسول اللہ صلی اللہ علیہ کی شادی کی محفل کتنی سادہ تھی کہ جس میں کوئی کھانا نہیں بنایا گیا تھا۔۔۔
آج ہم مسلمان ہو کر بھی شادی بیاہ کی تقریبات پر اپنے مال کا بے دریغ ضیاع کرتے ہیں اور حدوں کو توڑ توڑ جاتے ہیں۔۔۔۔
اللہ ہمارے احوال کی اصلاح فرما دے۔۔۔ !!!!
رسول اللّٰہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ:
"ایک بار جبریل سبز ریشم میں لپٹی ہوئی کوئی چیز لائے اور فرمایا کہ یہ دنیا و آخرت میں آپ کی بیوی ہیں،میں نے دیکھا تو وہ عائشہ تھی۔”
(ترمذی)۔
آپ رسول اللہ کی چہیتی زوجہ تھیں۔۔۔
حضرت عائشہ کی سہیلیاں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر آ کر گڑیوں سے کھیلا کرتی تھیں،جب رسول اللہ تشریف لاتے تو چھپ جاتیں،
آپ صلی اللہ علیہ وسلم انہیں تلاش کرکے حضرت عائشہ کے پاس بھیجا کرتے تاکہ وہ عائشہ کے ساتھ کھیل سکیں۔۔۔”(رواہ البخاری:کتاب الادب)۔
حضرت عائشہ رضی اللہ عنھا کے نکاح سے جاہلیت کی تین رسوم کا خاتمہ ہوا۔۔۔۔
آپ کا نکاح و رخصتی شوال میں ہوا،
جبکہ اسے ٹھیک نہیں سمجھا جاتا تھا۔
منہ بولے بھائی کی بیٹی سے نکاح نہیں ہوسکتا ہے۔۔۔
اس نکاح سے اس جاہلانہ رسم کا بھی خاتمہ ہوا۔
دلہن کے آگے آگ جلانے کی رسم ختم ہوئیں۔۔۔۔
حضرت عائشہ علم و فضیلت میں ایک ممتاز مقام رکھتی ہیں۔۔۔
آپ کا اہم ترین کردار علمی خدمات ہیں۔۔۔۔
آپ محدثہ تھیں۔۔۔عورتوں میں سب سے زیادہ یعنی(2210) احادیث آپ نے روایت کی ہیں۔۔۔
اور بہت زیادہ علم آپ کم عمری میں سیکھ چکی تھیں…!!!
سلسلہ امہات المؤمنین:
سلسلہ امہات المؤمنین:
حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنھا۔
(تحریر:جویریہ بتول)۔
رسول اللّٰہ صلی اللہ علیہ وسلم کو حضرت عائشہ سے بہت زیادہ محبت تھی۔۔۔
حضرت عائشہ فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ ایک غزوہ سے واپس آئے۔۔۔میرے گھر کے طاق پر پردہ پڑا ہوا تھا،
ہوا سے پردے کا کونہ اڑا تو میری گڑیاں نظر آنے لگیں۔۔۔
رسول اللہ نے پوچھا یہ کیا ہیں۔۔۔میں نے کہا میری گڑیاں ہیں۔۔۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دیکھا کہ ان گڑیوں میں ایک گھوڑا بھی ہے،جس کے اوپر دو پر تھے
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا یہ کیا ہیں ؟
میں نے کہا دو پر ہیں۔۔۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کیا گھوڑوں کے بھی پر ہوتے ہیں؟؟
میں نے کہا:
آپ نے سنا نہیں کہ حضرت سلیمان علیہ السلام کے پاس پروں والے گھوڑے تھے؟
یہ سن کر رسول اللہ ہنس پڑے یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی داڑھیں دکھائی دینے لگیں۔۔۔
(رواہ ابو داؤد۔۔۔کتاب الادب)۔
کیوں کہ حضرت عائشہ بہت ذہین،حاضر دماغ اور فصیح اللسان تھیں۔۔۔
تو فوراً یہ جواب دیا تھا۔۔۔
ام المؤمنین فرماتی ہیں کہ ایک سفر میں نبی کریم صلی اللّٰہ علیہ وسلم کے ساتھ تھی
میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے دوڑ کا مقابلہ کیا اور آگے نکل گئی۔۔۔
پھر جب میرا جسم بھاری ہو گیا تو ایک بار پھر آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم سے دوڑ کا مقابلہ کیا،
اب کہ آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم مجھ سے آگے نکل گئے۔
اس پر آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے فرمایا:
یہ اُس جیت کا بدلہ ہے۔۔۔ !!!
(رواہ ابو داؤد_کتاب الجہاد)۔
حضرت عائشہ فرماتی ہیں کہ میں پانی پیتی پھر یہی برتن نبی کریم صلی اللّٰہ علیہ وسلم کو دیتی،آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم اسی جگہ منہ رکھ کر جہاں سے میں نے پانی پیا ہوتا تھا،پانی پیتے،
میں اپنے دانتوں سے ہڈی سے گوشت الگ کرتی،پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیتی،آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم اسی جگہ سے کھاتے۔۔۔”
(رواہ مسلم)۔
حضرت عائشہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے مجھ سے فرمایا
میں جان لیتا ہوں جب تم مجھ سے خوش ہوتی ہو اور جب مجھ سے ناراض ہوتی ہو۔۔۔
میں نے پوچھا آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم کیسے جان لیتے ہیں؟
آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے فرمایا:
جب تم مجھ سے خوش ہوتی ہو تو کہتی ہو۔۔۔نہیں محمد صلی اللّٰہ علیہ وسلم کے رب کی قسم
اور جب مجھ سے ناراض ہوتی ہو تو کہتی ہو۔۔۔نہیں ابراھیم کے رب کی قسم۔۔۔
حضرت عائشہ فرماتی ہیں کہ میں نے کہا بے شک آپ سچ کہتے ہیں
اللّٰہ کی قسم!
اے اللہ کے رسول۔۔۔
غصے میں صرف آپ کا نام زبان سے نہیں لیتی۔۔۔۔(رواہ البخاری)۔
ان واقعات میں میاں بیوی کے لیئے بہت سے اسباق ہیں۔۔۔
پیارے نبی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے عمل سے بیویوں کے مقام اور ان سے حسنِ سلوک اور عزت افزائی کرنا سکھائی۔۔۔ہمارے معاشرے میں آج بھی کئی شوہر بیویوں کے حوالے سے عجیب وغریب سوچیں رکھتے ہیں جن کی اصلاح کی ضرورت ہے۔۔۔
حضرت عائشہ فرماتی ہیں کہ رسول اللہ بقیع سے لوٹے میرے سر میں درد تھا اور کہہ رہی تھی ہائے میرا سر۔۔۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔۔۔بلکہ میں۔۔۔اے عائشہ ہائے میرا سر۔۔۔!!!
(رواہ ابن ماجہ)۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو حضرت عائشہ سے بے حد محبت تھی۔۔۔۔آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے مرض الموت میں زیادہ دن حضرت عائشہ کے حجرے میں گزارے اور جب نبی محترم صلی اللہ علیہ وسلم نے وفات پائی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا سر حضرت عائشہ کی گود میں تھا۔۔۔۔ !!!
اور آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم حضرت عائشہ کے حجرے میں ہی دفن ہوئے(صلی اللّٰہ علیہ وسلم)۔
رسول اللّٰہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
مردوں میں سے تو بہت کامل گزرے ہیں مگر عورتوں میں مریم بنت عمران اور آسیہ (علیھما السلام)۔۔۔۔اور عائشہ کی فضیلت دوسری عورتوں پر ایسے ہے جیسے ثرید کی فضیلت دوسرے کھانوں پر ہے۔۔۔ !!!”
(صحیح بخاری)۔
(رضی اللّٰہُ عنھا)۔
اللّٰہ تعالی ہم سب کو ان تعلیمات سے خود کو منور کرنے کی توفیق نصیب فرمائے آمین۔۔۔ !!!!
حضرت عائشہ رضی اللّٰہُ عنھا فقیہہ،قرآن و احادیث، عرب تاریخ،علم النسب اور علمِ وراثت کی ماہرتھیں۔ آپ عرب شاعری پر بھی عبور رکھتی تھیں۔۔۔
آپ رضی اللّٰہُ عنھا کا نام بے تکلف مجتہدین صحابہ کرام کے ساتھ آتا ہے۔
اکابر صحابہ کرام رضوان اللہ آپ سے مسائل کا حل پوچھتے اور آپ دورِ خلافت ابو بکر صدیق،عمر اور عثمان رضی اللہ عنھم میں فتویٰ بھی دیا کرتی تھیں۔۔۔۔رویت باری،علمِ غیب،واقعہ معراج،عصمت انبیاء کی وضاحت میں آپ کی دقتِ نظر کا پلہ بلاشبہ بھاری نظر آتا ہے۔۔۔ !!!
غزوہ بنی مصطلق 5ھ میں پیش آیا،اماں عائشہ صدیقہ بھی اس سفر میں رسول اللہ کے ساتھ تھیں،
راستے میں آپ کا ہار گم ہو گیا،
جس کی وجہ سے قافلہ کو رکنا پڑا،
نماز کا وقت آن پہنچا اور پانی بھی موجود نہیں تھا،
صحابہ کرام پریشان ہو گئے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر تیمم کا حکم نازل ہو گیا۔۔۔
صحابہ میں خوشی کی لہر دوڑ گئی اور حضرت اسید بن حضیر رضی اللہ عنہ بے ساختہ پکار اٹھے:
اے آل ابو بکر !
تم سرمایۂ برکت ہو۔۔۔۔
تم پر جب بھی کوئی مصیبت آئی ہے اس میں مسلمانوں کے لیئے آسانی و خوشی کا ہی سامان نکلا ہے۔۔۔ !!!!
انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ غزوہ احد میں حضرت عائشہ اور ام سلیم زخمیوں کو پانی پلاتی تھیں،یہ غزوہ مسلمانوں پر کڑا وقت تھا۔۔۔
کئی مسلمان شہید ہو چکے تھے اور کئی زخمی تھے۔۔۔
اس وقت میں بھی حضرت عائشہ کا کردار ہمیں نظر آتا ہے۔۔۔
سرخ و سفید رنگت رکھنے والی،حسن و جمال کی پیکر ام المؤمنین حضرت عائشہ عاجزی و قناعت میں بھی نمایاں تھیں۔۔۔
آپ پر تین اوقات بہت گراں گزرے۔۔۔
واقعۂ افک،
واقعۂ تحریم،
اور واقعۂ ایلاء۔۔۔
واقعۂ افک میں منافقین کی گھڑی گئ سازش کو اللہ رب العزت نے آسمان سے اپنا قرآن اتار کر بے نقاب کر دیا اور آپ رضی اللّٰہُ عنھا کی صداقت کی گواہی دے کر منافقین و مومنوں کو واضح کر دیا۔۔۔
اہل ایمان اپنی ماں کی شان میں اترے قرآن کی تلاوت تا قیامت کرتے رہیں گے اور ان کے ایمان کو جِلا ملتی رہے گی ان شآ ء اللہ۔
حضرت عائشہ نے اٹھارہ سال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ گزارے اور اڑتالیس سال بیوگی کے گزارے۔۔۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد آپ کی تمام عمر قرآن و حدیث کی تعلیم عام کرتے گزری۔۔۔
حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کے دورِ خلافت کے آخر میں 17 رمضان المبارک میں 66سال کی عمر میں وفات پائی اور جنت البقیع میں دفن ہوئیں۔۔
سلسلہ امہات المؤمنین: 1؛حضرت خدیجہ رضی اللّٰہُ عنھا۔ تحریر: جویریہ بتول