ہمارے محترم ججزز کی طرف سے آجکل سندھ کے حوالے سے بہت سے ریماکس پاس کیے جا رہے ہوتے ہیں سندھ حکومت نے سندھ کو تباہ کر دیا ہے سندھ کو یہ کر دیا سندھ کو وہ کر دیا  مگر یہ بس ریمارکس ہی ہوتے جو چند دن سوشل میڈیا اخبارات کی زینت بنے رہتے مگر انکا نتجہ صفر ہوتا عوام عدالت کی طرف دیکھتی اور وہاں بس سنے کو ملتی الزامات کی نئی داستانیں۔۔

تاریخ کے اوراق پلٹیں تو سیاستدانوں نے سندھ کو ہمیشہ سے ہی نظر انداز کیا ہے پھر چاہے وہ پرویز مشرف ، نواز شریف جماعت اسلامی ، ایم کیو ایم ہو یا روٹی کپڑا اور مکان کا نعرہ لگانے والی حکمران جماعت پیپلز پارٹی جو تیرہ سال سے سندھ کے تخت پر براجمان ہے۔

 اگر ہم کشمور سے کراچی تک نظر ڈالیں ہمیں بیروزگاری غربت تعلیم سے محرومی تباہ حال سڑکیں اسپتالوں کی بدحالی نظر آۓ گی۔ سندھ کے بچے بھوکے سوئیں یا تھر میں بچے قحط سے بھوکے پیاسے مر جائیں کسی کو کوئی فرق نہیں پڑتا افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے ہمارے سندھ کے کچھ سیاستدان اس حد تک گر چکے ہیں کہ غریب عوام  کو اپنے جانوروں سے بھی کمتر سمجھتے ہیں ان کیلئے سندھ صرف وہی تک ہے جہاں سے انہیں  ووٹ ملتے ہیں باقی علاقے سندھ کا حصہ نہیں۔

 

اس وقت  پورے سندھ میں کرپشن اقربا پروری کا راج ہے بدترین انتظامی بدحالی ہے افسوس صد افسوس آج  سندھ پاکستان کا سب سے پسماندہ اور بینادی سہولیات سے محروم صوبہ بن چکا ہے۔

 یہ ہمارے ملک کی یہ بد قسمتی ہے کہ یہاں سیاست پر شخصیت پرستی کی گہری چھاپ ہے جس کو سیاستدان اپنے فائدے کے لئے بھر پور استعمال کرتے ہیں سندھ میں کل بھی بھٹو زندہ تھا اور آج بھی بھٹو زندہ ہے اس ایک وہم  نے سندھ کی جڑوں کو کھوکھلا کر دیا ہے۔

اگر دیکھا جائے تو سندھ کی تباہی کی اصل ذمہ دار سندھ  کی اپنی عوام ہے جو ہر بار دو وقت کی روٹی کے لئے اپنا ووٹ بیچ دیتی ہے مگر وہ بھی کیا کریں بے بس مجبور ہوتے۔ مگر دکھ کی بات ہے جب پڑھا لکھا طبقہ بھی انکے لئے کوشاں نظر آتا ہے۔ یہ سو کالڈ سوشل ورکرز  ہی ہیں جو زمینی حقائق کے قریبی جائزے کے بغیر شاہ کے حق میں رطب السان ہیں۔

 سندھ میں اردو سندھی بولنے والوں کے درمیان فساد بھی اس ہی لئے کراۓ جاتے ہیں کہ سندھ کے لوگوں کو حقیقی مسائل سے دور رکھا جا سکے سونے پر سہاگا  سندھ حکومت کے کام ہی انوکھے ہیں سندھ کا کوئی بھی محکمہ دیکھ لیں اعلی عہدوں پر سندھی بولنے والے ملیں گے، اردو بولنے والا شہری طبقہ بیروزگاری اور احساس محرومی کی وجہ سے سندھی بولنے والے اپنے ہی لوگوں کو اپنا دشمن تصور کرنے لگے ہیں۔

 

 سائیں سرکار  تعصب و نسل پرستوں پر مبنی ہے جو سندھ کی شہری عوام کو اپنا غلام بنانا چاہتی ہے سندھ کے مسلے کی اہم جڑ دیہی سندھ کا جاگیردارنہ نظام ہے یہ ہی وڈیرے شہری سندھ پر بھی قابض ہیں اور سائیں سرکار کے وٹر بھی ہیں دراصل یہ ان ہی کی جاگیروں پر پلنے والے مزارعے ہیں اگر کوئی ان کے خلاف بات کرے  تو وہ  قومیت کا مورچہ سنبھال لیتے ہیں یا سیدھا قبر میں اتار دیتے ہیں صحافی عزیز میمن تو یاد ہی ہوگا کس طرح اس نے بلاول زرداری کے ٹرین مارچ کو ایکسپوز کیا اور اس کے کچھ دنوں کے بعد اسکو  بے دردی کے ساتھ قتل کر دیا گیا ایسے بہت سے صحافی ہیں جنہیں سچ لکھنے کے عوض موت کے گھاٹ اتار دیا گیا۔ 

 یہاں تک کہ ہماری صحافی برادری سندھ میں صحافیوں کے اس ناحق قتل عام پر خاموش تماشائی بنی رہتی ہے مگر کسی میں بھی اتنی جرات نہیں کہ ان کے لئے آواز بلند کرسکے۔

 

اکیسویں صدی کے اس دور میں اندرون سندھ کئی دہائیوں  پیچھے ہے جہاں بنیادی سہولیات ناپید ہیں جاہلانہ رسم و رواج عام ہیں وجہ شعور اور تعلیم کی کمی ہے جن سرکاری درسگاہوں سے ہمارے بچوں کا مستقبل وابستہ ہے رنج کی بات وہاں گائیں بھینس بکریاں بندھی  پی ایچ ڈی کر رہی ہیں یا زنگ آلود تالے پڑے ہیں کوئی پوچھنے والا نہیں۔ 

سندھ کے تعلیمی نظام پر ہم کیا بات کریں حال ہی میں لئے گئے آئی بی اے سکھر کی طرف سے جے ایس ٹی ٹیسٹ کے نتائج چیخ چیخ کر دنیا کو خود حقیقت بتا رہے ہیں جہاں ایک لاکھ ساٹھ  ہزار سے زائد امیدواروں نے ٹیسٹ دیا اور صرف بارہ سو پچاس امیدوار پاس ہوۓ مطلب کے 99% امیدوار فیل ہوۓ اور کامیابی کا تناسب صرف 0.78 فیصد رہا ایسا تو پھر ہونا تھا جس حساب سے بچوں کو نقل کروائی جاتی ہے۔ رہی سہی کسر کرونا وائرس کی وجہ سے دو سال سے تعلیمی اداروں کی بندش نے پوری کردی۔ 

‏بلاول زرداری کہتے نہیں تھکتا کہ سندھ میں بہترین صحت کا نظام ہے کوئی پوچھے اس سے سندھ میں اسپتالوں میں جانبحق ہوجانے والوں کے لیے ایمبولینس سروس تک دستیاب نہیں، لوگ سندھ کےعلاقوں میں ریڑھیوں پر مریض لےجاتےہیں۔دوائیوں کا فقدان ہے سوچ کر بھی روح کانپ اٹھتی ہے ان والدین پر کیا بیتی ہوگی جن کے معصوم چھوٹے بچے ان کے ہاتھوں میں تڑپ تڑپ کر مر گئے کیونکہ ان کو آوارہ کتوں نے کاٹا تھا اور ہسپتال میں ویکسین نہیں تھی،کوئی پوچھنے والا نہیں  کیونکہ سندھ کی ہیلتھ منسٹر بلاول کی پھوپھو ہیں۔

 ‏پینے کے پانی پر بات کریں تو سندھ حکومت ایک دہائی سے مسلسل اقتدار میں ہے لیکن ابھی تک کراچی سمیت سندھ کے دیگر شہروں کو پینے کا صاف پانی جیسی بنیادی سہولت تک میسر نہیں کر سکی کچھ ہی دن پہلے کی بات ہے بڈو جبل کے بچوں کی وڈیو دیکھی چھوٹے معصوم پیاسے  بچے راستے بلاک کر کے احتجاج کر رہے تھے ہمیں پینے کا پانی دو۔شرم سے ڈوب مرنے کا مقام ہے سندھ حکومت کے لئے مگر شرم ہو تب کی بات۔

  ‎   

‏کہنے کو اس وقت سندھ کا وزیر اعلیٰ انتہائی قابل دور اندیش بندہ ہے مگر ‏جب کرونا شروع ہوا اس وقت بلاول زرداری  لفافے دے کر میڈیا سے مراد علی شاہ کی تعریفیں کرواتے رہے مگر پھر عوام کو پتا چل ہی گیا کہ ہرچیز بند کرنے کے باوجود سندھ میں زیادہ کیسز کا آنا ثبوت ہے کہ سندھ حکومت ناکام ہوچکی ہے، کیا تو نا اہل حکومت ہے کرونا ویکسین بھی وفاق نے فری میں دی ہیں مگر  ویکسین لگانے تک کا ٹھیک سے انتظام نہیں کر سکے

 ‏قائم علی شاہ ناکام وزیراعلی تھا لیکن اس نے تو ناکامی میں  قائم علی شاہ کو بھی مات دے دی- 

 

 سندھ میں پیپلز پارٹی نے آندھی مچائی ہوئی ہے، کوئی پوچھنے والا نہیں ہے، نہ کوئی کسی کو جوابدہ ہے، اٹھارہویں ترمیم نے صوبوں میں وفاق کا عمل دخل ہی ختم کر دیا ہے،اس ترمیم کی آڑ میں یہ لوگ  اپنی من مانی کر رہے ورنہ جس دن محترمہ بے نظیر بھٹو کو شہید کیا گیا تھا اس دن کے بعد سے پیپلز پارٹی ختم ہوگئی تھی ۔اب یہ صرف سندھ کارڈ اور بھٹو کے نام پر عوام کو دونوں ہاتھوں سے لوٹ رہے ہیں۔

 

  یہ نااہل اور کرپٹ لوگ سندھ کی عوام کو کیا دے سکتے ہیں سواۓ غربت و افلاس اور تباہی کے  بلکہ یوں کہیں کہ انکا منشور ہی کرپشن ہے اوپر سے لے کر نیچے تک سواۓ کرپشن کے ان کی کوئ کارکردگی نہیں۔

  

 سندھ کے لئے خطرہ انکا انتخاب اور اس سے بھی بڑا خطرہ اٹھارویں ترمیم کے فوائد ہیں۔ سندھ کی حالت دیکھ کر بہت دکھ ہوتا ہے لکھنے کو تو ابھی بہت کچھ ہے مگر  اب الفاظ ساتھ نہیں دے رہے نہ ہی ہمت آخر میں بس اتنا ہی کہوں گا مجھ سمیت پاکستان کا ہر شہری حکومت سے ڈیمانڈ کرتا ہے کہ اٹھارویں ترمیم سے ریاست پاکستان  کو پہنچنے والے نقصان کا جائزہ لے کر پاکستان کے وسیع تر مفاد میں اس ترمیم کو ختم کیا جانا چاہیئے  ورنہ دیمک کی طرح پاکستان کی جڑیں کھوکھلی کر دے گا۔۔!!

 nomysahir@

Shares: