صنفی امتیاز کا خاتمہ . تحریر: عابد خان اتوزئی
![](https://baaghitv.com/wp-content/uploads/2021/07/women-3.jpg)
دنیا کی تخلیق کے طریقہ کارپردنیا بھرمیں اختلافات پایا جاتا ہے۔ دنیا کے ہرکونے سے تعلق رکھنے والے لوگوں کا اپنا ایک نظریہ ہے، دنیا کی تخلیق کیسی ہوئی؟
ہرکوئی اس ضمن میں اپنی رائے کودلا ئل کے ساتھ پیش کرکے خود کو درست ثابت کرنے کیلئے کوشاں ہے۔ اس ضمن میں بے شمارکتابیں بھی موجود ہیں۔ اس پرسائنس اورمذہب بھی کئی جگہوں پرآمنے سا منے آچکے ہیں ۔یہی صورتحال کچھ معاشروں کے وجود کا بھی ہے۔معاشرے کا وجود مختلف معاشرے کے اقدارمختلف معاشرے کے اصول مختلف رسم ورواج مختلف حتیٰ کہ مقاصد بھی مختلف لیکن ایک چیزایسی بھی ہے کہ جس کے بارے میں دنیا کا ہرانسان متفق بھی ہے اوردرست بھی ہے وہ یہ کہ زمین کی پیدا ئش انسان کیلئے ہوئی ہے دنیا میں کہی بھی کسی سے بھی اگرپوچھا جائے کہ کیا دنیا انسان کے رہنے کیلئے بنائی گئی ہے اس کا جواب مثبت ہوگا۔ یہ حقیقت بھی ہے.
دوسری بات جس میں لوگ بظاہراختلافات نہیں رکھتے وہ انسان کی برابری ہے، اگرسوال کیا جائے کہ آیا دنیا کے تمام انسان حقوق کے لحاظ سے برابرہیں؟ توفخریہ اندازمیں جواب ہاں میں ملے گا۔ یہی وہ نقاطہ ہے جہاں سے انسان کے نظریات اورمنافقت کا بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے دنیا اورزمین کی پیدائش کے اختلافات کے پیچھے ہرایک کا اپنا ایک نظریہ کارفرما ہوتا ہے جو درست بھی ہوسکتا ہے اورغلط بھی لیکن جس چیز کے بارے میں بظاہر سب کے سب انسان متفق ہے یعنی زمین انسان رہنے کی جگہ اورسب انسان برابرہیں کے پیچھے دنیا کی کثیرتعداد کی چھپی ہوئی منافقت موجود ہے، یہی وجہ ہے کہ دنیا کے ہرتیسرے اورچوتھے ملک میں ایک فساد برپا ہے، اس کے علاوہ ہرملک میں انسانوں کے مابین حقوق کے غیرمساوی تقسیم نے کہرام برپا کیا ہے۔ ایک انسان دوسرے انسان کوخود سے بہترتصورکرتا ہے اس کی نسبت اپنے آپ کو زیادہ مراعات کا حقدارسمجھتا ہے، اس نقطہ سے لوگوں کے حقوق کی حق تلفی کا باقاعدہ آغازہوتا ہے۔
دنیا کے کسی بھی کونے میں بھی کسی بھی انسان کے مابین اختلافات اورجھگڑے کی بنیادی وجہ حق تلفی ہی ہوتی ہے۔ اس کے برعکس کسی بھی خوشحال ملک یا معاشرہ کا جائزہ لیا جائے تومعلوم ہوتا ہے کہ خوشحالی کہ اصل وجہ لوگوں کے مابین حقوق کی مساوی تقسیم ہے، اس معاشرے میں ان گنت مسائل اوربے چینی پائی جاتی ہے جہاں پرمساوات کی قبریں موجود ہوتی ہیں اگران حق تلفیوں کی حوصلہ شکنی نہ کی جائے تو وقت کے ساتھ ساتھ یہ رویہ کا شکل اختیارکرلیتا ہے، یہاں سے یہ مسئلہ انفرادیت سے اجتما عت کے مدارمیں داخل ہوجاتا ہے اورجب اجتماعیت کے ہاتھ میں ایک خاص رویہ پنپنا ہے تو وہ روایت بن جایا کرتی ہے۔ کسی بھی معاشرے کے تجزئیے سے یہ بات بخوبی جانی جاسکتی ہے کہ ہراک روایت کے پیچھے ایک خاص رویہ مضمر ہے۔ روایات میں اپنی رویوں کا اظہارہوتا رہتا ہے، روئیے اور روایت کی بنیاد کسی قوم یا معاشرے کے حامل کردہ علوم پرہوتا ہے جو وہ حقوق کی تقسیم کے بارے میں رکھتے ہیں۔
اگر حاصل کردہ علم زندگی گزارنے کے لئے ناکافی اورناقص ہے تو منفی رویہ بنے گا، منفی روایات بنے گئے اورمنفی معاشرے کی بنیاد پڑے گی اوراگر حاصل کردہ علم مثبت ہے اورایک بہترزندگی گزارنے کے لئے کافی ہے تو مساوی حقوق، مثبت رویہ، مثبت روایات اور مثبت معاشرہ بنے گا۔اس علم کی بنیاد پرمعاشرے میں ہرچیزکے بارے میں ایک خاص رویہ موجود ہے، اب اگرمعاشرے میں موجود رویے سے مسا ئل پیدا ہورہے ہیں توہمیں علم کے وہ سرچشمے بدلنے ہوں گے جن کی بنیاد پررویہ یا روایت بنتی ہے۔اب اگراپنے معاشرے کا جائزہ لیا جائے تو بہت سے تکلیف دہ منفی روئیے سامنے آئے ہیں۔ان میں سے ایک منفی رویہ معاشرے میں موجود صنفی امتیاز ہے جس نے باقاعدہ تشدد کی شکل اختیارکررکھی ہے جس کا ثبوت چند دن قبل روالپنڈی کے علاقہ ثاقب آباد میں ہونے والا واقعہ ہے۔قارئین بخوبی جانتے ہیں کہ ارسلان نامی جوان نے اپنی ماں پرتشدد کیا ہمارے معاشرے میں خواتین کے بارے میں موجود منفی رویے نے ہمیں دنیا میں چھٹے نمبرپرلا کھڑا کردیا صنفی امتیازی کی بدولت ہم دنیا میں جانے جاتے ہیں ”بدنام جو ہو گے تو کیا نام نہ ہو گا“ صنفی امتیاز کوختم کرانے اورخواتین کے بارے میں قائم منفی رویوں اورروایات کو جڑ سے اکھاڑنے کے لئے ہمیں آنے والی نسلوں کو مثبت علم دینا ہوگی ورنہ جو حالت گلنازبی بی کے ہیں وہ ہرگھرمیں موجود ہرعورت کے ہونگے.
@AtozaiKhan