سیاسی جماعتیں ان دنوں الیکشن کے بارے گفتگو کر رہی ہیں۔ اس وقت یہی دعا کی جا سکتی ہے ہمارے سیاستدان جمہوری بن جائیں۔ جمہوریت کو مستحکم کریں ۔ آئین پر عمل کریں اور قانون کی حکمرانی کو یقینی بنانے میں اپنا کردار ادا کریں ۔ زبانی جمع خرچ سے باہر نکلیں بھڑکیں نہ ماریں ۔ آئین اور پارلیمنٹ کی بالادستی کو یقینی بنانے میں بھی کردار ادا کریں۔ حیرت ہے بعض سیاستدانوں پر آئین میں صاف لکھا ہے کہ الیکشن کب ہوں گے پھر بھی کہیں سے آواز آتی ہے کوئی حتمی نہیں الیکشن لیٹ بھی ہو سکتے ہیں ۔
پنجاب میں آج بھی نگران حکومت ہے اور خیبر پختونخوا میں یہ نگران کب تک رہیں گے ۔ آئین میں سب کچھ لکھا ہے ۔ کیا اب وفاقی نگران حکومت جو بنے جا رہی ہے اُ س کی معیاد بھی پنجاب اور خبیر پختونخوا کی طرح بڑھائی جائے گی ؟ اگر ایسا ہے تو پھر کیسی جمہوریت اور کیسا آئین ؟ سیاسی گلیاروں میں پیپلزپارٹی جو رونق جیالے لگاتے ہیں وہ رونق پی ٹی آئی والے بھی لگانا سیکھ چکے ہیں۔ مسلم لیگ (ن) ، قیلولہ میں چلی گئی سیاسی جلسوں میں رونق مریم نواز اور نواز شریف ہی لگا سکتے ہیں مگر(ن) لیگ کی قانونی ٹیم کہاں تک پہنچی ہے نواز شریف کا راستہ ہموار کرنے کے لیے اس کا جواب تو شہباز شریف ہی دے سکتے ہیں۔ اس وقت اصل مسئلہ سیاست ، جمہوریت اورمعیشت کا ہے ۔
ان مسائل سے نکلنے کے لئے نواز شریف کا پاکستان میں ہونا ضروری ہے۔الیکشن جمہوریت کا حسن ہوتے ہیں ۔(ن) لیگ کا الیکشن مریم نواز اور بالخصوص نواز شریف کے بغیر ادھورا ہو گا ۔ کہا جاتا ہے کہ پیپلزپارٹی ریڈ لائن سے گرین لائن تک پہنچ چکی ہے ۔ آصف علی زرداری کی خواہش ہے کہ آئندہ ملک کے وزیراعظم بلاول بھٹو بنیں اس سلسلے میں وہ اپنے تیر نشآن کو لے کر بلوچستان سے لے کر پنجاب اور خیبر پختونخوا تک چلا رہے ہیں۔ نئی سیاسی جماعت بھی پیپلزپارٹی کے لئے غنیمت ثابت ہو ۔
مزید یہ بھی پڑھیں؛
خطرناک اشتہاری ملزم کو دبئی سے گرفتار کرلیا گیا
چیئرمین تحریک انصاف سے 13 مقدمات میں 5 رکنی تحقیقاتی ٹیم کی تفتیش
آئی ایم ایف کی عمران خان سے ملاقات سیاسی عمل کا حصہ ہے،مریم اورنگزیب
افغانستان کر کٹ ٹیم نے تین میچز کی سیریز اپنے نام کر لی
یونان کشتی حادثہ؛ جاں بحق 15 مزید پاکستانیوں کی شناخت
بے اولادی کے طعنے پر 3 پڑوسیوں کو قتل کرنے والا ملزم گرفتار
محمد رضوان کو سری لنکا کیخلاف ٹیسٹ سیریز میں کھلانے پر غور
آصف علی زرداری سیاسی چال چلتے ضرور ہیں مگر وہ قدم پھونک پھونک کر رکھ رہے ہیں۔ ویسے بھی نظریات وغیرہ دفن ہو چکے ہیں۔ آئین پر عمل بھی ایک خوا ب لگتا ہے۔ عوام کی اکثریت رو رہی ہے اور سیاسی تماشے بھی دیکھ رہی ہے۔ سیاست اور سیاستدان عام انسانوں کے لئے بیزاری بنتے جا رہے ہیں۔