فکری یلغار، سلو پوائزننگ
تحریر عشاء نعیم
رفتہ رفتہ زمانہ بدل جاتا ہے ایک دم سے کچھ نہیں ہوتا ۔اور زمانہ بدلنے کا مطلب انسان بدلنا بلکہ انسانوں کی سوچ بدلنے کا نام دنیا یا زمانہ بدلنا ہے ۔
کسی بھی انسان کی سوچ آپ ایک دم نہیں بدل سکتے رفتہ رفتہ بدل سکتی ہے ۔ہاں کچھ نظریات ضرور ایسے ہوتے ہیں جو یک دم کسی واقعہ، کسی حادثہ ،کسی تجربہ یا کسی دلیل کے سامنے ایک دم بدل جاتے ہیں لیکن مجموعی سوچ نہیں۔
اس کے ویسے تو کئی ثبوت ہیں لیکن آپ کے سامنے سب سے بڑا ثبوت آخری نبی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا تئیس سال میں دین مکمل ہونا ہے ۔
اس کاملیت میں صرف دین کے احکامات و مسائل ہی شامل نہ تھے بلکہ لوگوں کی سوچ بھی شامل تھی جو بتوں کی پوجا ،اور کردار کی جہالت سے مکمل بدل چکی تھی اور اب وہ لوگ بت پرست نہیں بلکہ بت شکن تھے اور دنیا کے مہذب ترین لوگ تھے ۔جنھوں نے آگے بڑھ کر دنیا کی امامت سنبھال لی اور پھر روتی سسکتی، تڑپتی انسانیت کو جو جہالت میں گھر چکی تھی، کو اندھیروں سے نکال کر روشنی میں لے آئی اور رفتہ رفتہ یہ دنیا سکون کا سانس لینے لگی ۔
لیکن انسانیت کے دشمن کہاں یہ برداشت کر سکتے تھے ،جن کا مقصد انسانوں کو غلام بنا کر ان پہ حکومت کرنا اور انھیں آگ و خون میں نہلا کر شیطانی دماغوں کو سکون دینا تھا ۔۔
انھوں نے جب دیکھا یہ عرب کے صحرائی دنیا کو ایسی روشنی میں لا رہے ہیں جہاں سے ان کی حکومت کا خاتمہ ہوتا نظر آنے لگا تو انھوں نے رفتہ رفتہ اس دنیا کی سوچ پھر بدلنی شروع کردی ۔
جہاد ،تلوار اور گھوڑا ،تین خوبصورت نام تھے جو کسی بھی بہادر انسان کا زیور سمجھا جاتا تھا اسے گالی بنانے لگے ۔جس تلوار سے ظلم کا سر قلم کیا جاتا تھا اس کو ظالم اور انسانوں کے لیے دہشت گردی قرار دیا جانے لگا ۔
مظلوم کو آواز اٹھانے پہ غدار اور ظالم کو انسان کا نام دیا جانے لگا ۔
جرم کو فطری قرار دیا جانے لگا اور مجرم کو قابل ہمدردی اور جرم اس کا حق قرار دیا جانے لگا ۔
مجرم کے لیے سزا کا مقصد تھا کہ دوسرے لوگ عبرت پکڑیں اور جرم سے باز رہیں لیکن یہاں کہا جانے لگا کہ وہ بھی انسان ہے ۔یوں اس کی ہمدردی میں لوگوں کو کھڑا کر کے اس کی حفاظت کی جانے لگی ۔نتیجتہ رفتہ رفتہ مسلمان کی سوچ بھی بدلنے لگی جرائم بڑھنے لگے ۔انسانیت سسکنےلگی ۔
مسلمان انسانیت کے نام پہ عملی طور پر اٹھے، دنیا کو سکون ملا اور چھا گئے ۔
پھر مسلمانوں کو انسانیت کے نام پہ انھیں ان کے مذہب سے عملی طور پہ دور کیا جانے لگا اور وہ دنیا میں دبنے لگا جس سے انسانیت خون میں نہلانے لگی۔
آج سے سو سال پہلے تک اسلامی خلافت موجود تھی جس کی نگرانی میں کئی ممالک تھے تو اس وقت تک کچھ حد تک انسانیت کو سکون تھا لیکن شیطان نے اپنی چال چلی خلافت ختم ہو گئی اور پھر اس وقت سے آج تک ہر جگہ انسان آگ و خون میں نہا رہا ہے (جس میں مسلمان ہی ہیں کیونکہ اگر مسلمانوں کو نہ مارا گیا تو یہ باقی انسانوں کے لیے بھی غلامی سے نکلنے کے راستے ڈھونڈنے لگتے ہیں اور دنیا میں رب واحد کی واحدانیت کو ہی تسلیم کرتے ہوئے انصاف کا بول بالا کرتے ہیں )
یوں رفتہ رفتہ دنیا جو روشنیوں میں آئی تھی پھر سے اندھیروں میں بھٹک رہی ہے ۔
اور ہماری زندگی کے ہر معاملے میں یہی صورت حال ہے ۔
دنیا نے ٹیکنالوجی میں ترقی کی تو کئی چیزیں ایسی آئیں کہ مسلمان حلال اورحرام کے فرق کو نہ جان پائے اور اس چیز سے بچتے رہے (کیوں کہ رفتہ رفتہ مسلمانوں نے علم سے دوری اختیار کی اور بہت ساری احادیث و قرآن کی تفسیر سے بے بہرہ رہے۔)
وہی چیز جو ایک وقت میں حرام تھی رفتہ رفتہ وہ کچھ مقدار میں جائز سمجھی جانے لگی اور پھر رفتہ رفتہ وہ چیز مکمل طور پہ ہماری زندگی کا حصہ ہوں بنی کہ ہم یہ بھی بھول گئے کہ یہ حرام ہے یا حلال ؟
اس کی مثال ایک ایپ جو وٹس ایپ کے نام سے جانا جاتا ہے اور اس وقت دنیا میں بہت زیادہ استعمال ہو رہا ہے، میں آنے والے اموجیز کی بھی ہے ۔
"ایموجی ” لفظ شاید پہلے کئی لوگوں نے نہ سنا ہو لیکن وٹس ایپ کی وجہ سے ہر بندے کو ایموجی کا پتہ چل گیا ہے ۔
ایموجی دراصل چند لائنز سے بننے والا ایسا خاکہ ہے جس میں مکمل تصویر نہیں ہوتی آنکھوں کی جگہ نقطے اور ہونٹوں کی جگہ لائنز یوں لگاتے ہیں جس سے ہنسنا،رونا ،اداسی اور پریشانی کے ساتھ بہت سارے جذبات کا اظہار ہوتا ہے ۔
لیکن یہ مکمل شکل نہیں ہوتی ۔
پہلے پہل مذہبی طبقے نے اس سے پرہیز کیا رفتہ رفتہ غور کرنے پہ پتہ چلا یہ تو مکمل تصویر نہیں ہے سو استعمال میں حرج نہیں اور رفتہ رفتہ یہ بڑے بڑے مذہبی لوگ بھی استعمال کرنے لگے۔
پھر یہ سٹیکرز مزید ترقی کر گئے اور ان کی جگہ چھوٹے چھوٹے بچوں کی اصل تصاویر نے لے لی ۔معصوم سی پیاری پیاری من موہنی شکلوں نے دلوں کو موہ لیا اور ہر کوئی نہ صرف استعمال کرنے لگا بلکہ اپنے اپنے بچوں کے سٹیکرز بھی بنانے لگا ۔
رفتہ رفتہ ذہن کھلے اور اب یہ سٹیکرز اداکاروں کے بننے لگے ۔
جو میں مذہبی خیالات کی لڑکیاں جو غیر محرم کی تصاویر سے پرہیز کرتی ہیں وہ بھی ان سٹیکرز خو استعمال بے دھڑک کرنے لگیں۔
بات یہیں پہ ختم نہیں ہوئی بلکہ اب ینگ لڑکیوں کے کچھ اداکاروں کے ایسے سٹیکرز بھی آ گئے جن میں ان کا لباس غیر مناسب ہوتا ہے لیکن یہاں تو کوئی مسلہ نہیں کیونکہ رفتہ رفتہ ذہن بن چکے ہیں کہ یہ تو سٹیکرز ہیں ۔
ان میں سلیو لیس یا نیک لیس شرٹ ہو یا فضول اشارہ ہو اس سے کیا فرق پڑتا ہے ؟
رفتہ رفتہ دل دماغ اور سوچ سب بدل چکا ہے ۔ ذہن ان چیزوں کو قبول کر چکا ہے ۔جو چیز پہلی بار ہوتی ہے وہ حیرت انگیز، دوسری بار ،حیرت اور تیسری بار معمول کی بات ہوتی ہے ۔
کیونکہ رفتہ رفتہ ذہن بدل جاتے ہیں زمانے بدل جاتے ہیں۔
لیکن میری دعا ہے ہم رفتہ رفتہ واپس اسلام کی طرف لوٹ جائیں اور اچھائی برائی میں فرق کو سمجھتے ہوئے دنیا کو رفتہ رفتہ پھر سے عافیت میں لے آئیں ۔
پیاری بہنوں اور بھائیو آپ ان سٹیکرز میں جو آج کل بے ہودگی ہے خاص طور پہ سمجھ جائیں اور ان کو پھیلانے سے باز رہیں ۔یقینا ان بےہودہ سٹیکرز پہ جب دوسرے بندے کی نظر پڑے گی تو ذمہ دار آپ بھی ہوں گے ۔جواب دہ آپ بھی ہوں گے ۔
اس لیے اپنے آپ کو بچائیں دوسروں کو بھی بچائیں
وما علینا الالبلاغ