سوشل میڈیا ایک رنگین فتنہ تحریر: حیأ انبساط

0
64

‏کل سوشل میڈیا پہ ایک تصویر نظر سے گزری جس میں لگ بھگ ۱۲ سال کی بچی اپنے ہی ہم عمر بچے کے ساتھ اس کا بازو تھامے اس انداز سے کھڑی تھی جیسے نیأ شادی شدہ جوڑا اپنی شادی کی پہلی دعوت پہ تیار ہوکے واٹس ایپ سٹیٹس اپڈیٹ کرنے کیلئے تصاویر بنواتا ہے

‏اس تصویر کو دیکھ کے تعجب ہوا اور شرم بھی آئی کہ اس عمر میں ہمارا کسی شادی کی تقریب میں اگر کبھی جانے کا اتفاق ہو جاتا تو امّی کے ساتھ والی کرسی سے اُٹھنے کی بھی ہمت نہیں ہوتی تھی اور اگر کبھی کوئی خالہ پھوپھو وغیرہ تعریف کر دیتیں کہ بھئی تم تو بہت پیاری ہوگئی ہو تو شرم کے بجائے شرمندگی سے امی کے پیچھے منہ چھپانے کی کوشش کی جاتی تھی

‏آجکل کی نئی نسل کو یہ خوداعتمادی ( یا بےحیائی میں طے نہیں کر پا رہی ہوں ) اسمارٹ فون کے کھلے اور بے دریغ استعمال سے آئی ہے جس پہ چار چاند لاک ڈاؤن کے بعد سے ہونے والے آن لائن تدریسی انتظام نے لگائے ہیں۔ معصوم مائیں تین وقت کے کھانے کی تیاری میں مصروف رہتی ہیں اور فارغ ہونے پر تین ہی مشہور چینلز کے واہیات ڈراموں کی فکروں میں گھلتی دیکھائی دیتی ہیں اس بات سے بےخبر کے انکی اولادیں اپنی ہی فلموں کی تکمیل میں دن رات ایک کیے ہوئے ہیں۔

‏لیکچرز کی فراہمی کیلئے اسکول کے بنائے گئے واٹس ایپ گروپس میں سے ہی ساتھی طلبات کے نمبر اور سوشل میڈیا اکاؤنٹ کی معلومات بھی تبدیل کی جاتی ہیں دوستی کے نام پہ جو آجکل کے بچے کرتے دیکھائی دے رہے ہیں اس سے ان کے گھروالوں کے علاوہ باقی ساری دنیا واقف نظر آتی ہے ۔ تصاویر کے تبادلے سے لے کر رات گئے تک فون پہ گفتگو والے کچھ ہفتوں کے عشق کے بعد ان بچوں کا بریک اپ بھی ہوتا ہے اور دکھ بھرے اسٹیٹس بھی لگائے جاتے ہیں اور دو چار دنوں بعد ہی ایک نئی سہیلی انکی فوٹو لائک کرتی دیکھائی دیتی ہیں ۔

‏جبکہ تعلیم کا حال ان تمام سرگرمیوں کے برعکس ہے ۰ میں چونکہ درس و تدریس کے شعبے سے منسلک ہوں اسلیئے قریبی مشاہدہ تحریر کر رہی ہوں حال ہی میں ہونے والے سالانہ امتحانات میں ذہین سے ذہین طلبہ کی کارکردگی قابل افسوس تھی اور اوسط درجے کے طلبأ کا حال قابلِ رحم تھا ، ایک دو کو تو اپنے اسکول کے نام کی ہجّے تک بھول گئی تھی

‏اس تمام واقعات و حالات کا تذکرہ کرنے کا مقصد قوم کے معماروں کی اصلاح کے سوا کچھ بھی نہیں ۔ ہمیں نہیں معلوم کے یہ آنلائن تعلیمی نظام کب تک جاری رکھا جائے گا لیکن بحیثیت والدین ہماری اولین ترجیح اپنی اولاد کی اصلاح اور انکی عادات و سکنات سے باخبر رہنا ہے ۔ میں ٹیکنالوجی کے استعمال کے خلاف نہیں لیکن اسکے غلط استعمال کے ضرور خلاف ہوں اپنے بچوں کو اسمارٹ فون کے بجائے ڈیسک ٹاپ کمپیوٹز دلوائیں ، کمپیوٹر گھر میں ایسی جگہ رکھا جائے کہ آتے جاتے گھروالوں کی نظر اسکرین پہ جا سکے اسطرح بچوں کو بھی خوف ہوگا کہ ہماری سرگرمیوں سے گھر کے افراد واقف ہیں اور وہ کسی غلط سمت میں نہیں سوچیں گے ۔اس کے علاوہ ہفتہ کے اختتام پہ چھٹی والے دن والد صاحب صرف ایک گھنٹہ نکال کر پورے ہفتے کیا پڑھایا گیا اور انکے بچے نے کیا سیکھا ، اگر اس بارے میں اپنے بچوں سے بازپرس کر لیا کریں تو یقین کریں وہ پیسے جو آپ اپنے بچوں کی فیس بھرنے میں صرف کر رہے ہیں وہ وصول ہو جائیں گے ۔

‏ چیک اینڈ بیلینس کا ہونا ہر معاملے میں بےحد ضروری ہے کیونکہ آجکل جس تیزی سے یہ رنگین فتنہ جسکا نام سوشل میڈیا ہے ہماری نئی نسل کو بےراہروی کا راستہ دیکھا رہا ہے تو ایسے ماحول میں اپنے بچوں کی بہتر تربیت کرنا انکو صحیح غلط کی واضح تعلیم دینا ماں باپ کی ہی ذمہ دای ہے۔ یاد رکھیئے آپ سے دنیا کے بعد آخرت میں بھی اولاد کی تربیت سے متعلق سوال کیا جائے گا تو کیا خیال ہے اس معاشرے کے ساتھ اللّٰہ کو بھی جواب دینے کی تیاری کیوں نا آج سے ہی شروع کردیں ؟

@HaayaSays

Leave a reply