‏سوشل میڈیا: یہ ادھوری اور مصنوعی دنیا تحریر جواد خان یوسفزئی

 

ٹوئیٹر : Jawad_Yusufzai@

سوشل میڈیا اور خاص کر فیس بوک کی دنیا وسیع بھی ہے اور محدود بھی۔ وسیع یوں کہ ہر آدمی کو اس کے مزاج اور ضرورت کے مطابق مواد مل جاتا ہے۔ محدود یوں کہ جب اس مصنوعی دنیا میں چند لمحے جی کر حقیقی دنیا میں قدم رکھتے ہو تو احساس ہوتا ہے

خواب تھا جو کچھ کہ دیکھا جو سنا افسانہ تھا 

یہ مصنوعی دنیا ہے اور آنکھوں کو خیرہ کرتی اس دنیا سے جتنا دور رہیں، اتنا ہی اچھا ہے۔ حقیقت کے پرندے کا شکار، اس دنیا سے دور کھلی فضاؤں میں ہی ممکن ہے۔ یہ حقیقت اپنے بارے میں بھی ہو سکتی ہے، دوسروں کے باب میں بھی اور سب سے بڑھ کر اس دنیا کے تلخ حقائق بھی ہوسکتے ہیں۔ 

میرے خیال میں سوشل میڈیا کا یہ ایک بہت بڑا نقصان ہے کہ یہ انسان کو حقیقی دنیا کے بجائے مصنوعی دنیا میں لا کھڑا کرتا ہے۔ جو لوگ اپنا لائف کرئیر بنا چکے ہیں، ان کے لیے تو کسی حد تک ٹھیک ہے۔ مگر طالب علم اور خاص کر وہ لوگ جو یونیورسٹیوں سے نکل چکے ہیں اور غم روزگار اور غم دوراں کے دوراہے پر کھڑے ہیں، ان کے لیے یہ زہر قاتل سے بڑھ کر کوئی شے ہے۔ جب گھر سے ملنے والی جیب خرچ کا اے ٹی ایم کارڈ، جہانگیر ترین کی صورت اختیار کر گیا ہو، خود اپنے پیروں پہ کھڑا ہونے کے بجائے خان صاحب کی طرح فلسفہ جھاڑ رہے ہو اور عملی طور پر کچھ کرنے کے بجائے فیس بوکی دانشور بن بیٹھے ہو، تو یقین کریں آپ کا خون بالکل جائز ہے۔

سوشل میڈیا کے فوائد بھی ہیں۔ ان سے کس کو انکار۔ اور نہ ان کی طویل فہرست پیش کرنے کی ضرورت ہے۔ کیوں سب واقف ہیں۔ مگر مجھے وقت کے ساتھ احساس ہو چلا ہے کہ اس کے نقصانات فوائد سے کئ گنا زیادہ ہیں۔ سب سے بڑا نقصان تو اس کی مصنوعات ہی ہے۔ یہ سراب ہے۔ نظروں کا فریب ہے۔  ایک دن سر پہ تاج سجاتا ہے۔ دوسرے دن رسوا سر بازار کر دیتا ہے۔ "چائے والے” کی خوب صورت آنکھیں سوشل میڈیا کی برکت سے اس کو چند دن آسمانوں کی سیر کراتی ہیں۔ جب اس کو احساس ہوتا ہے کہ وہ کوئی بہت بڑی شے ہے، پھر زمین پر پٹخ دیتا ہے۔ کہ بھائی جتنا نچانا تھا نچا لیا۔ اب جاؤ اور اپنی چائے بیچو۔ "پاری ہو رہی ہے” والی حسینہ کے لیے بھی یہ چند دن کی رونقیں ساتھ لاتا ہے۔ جب لڑکی تفاخر کا سر بلند کرتی ہے تو پھر ہما کب کا اڑ چکا ہوتا ہے۔ قندیل بلوچ کو چند روز نچایا اور پھر زیر زمین پہنچا دیا۔ صندل خٹک اپنی ساری شوخیوں، چال ڈھال کے ساتھ نظروں سے اوجھل ہے۔ حریم شاہ کو ہر ماہ کوئی نئ واردات کرنی پڑتی ہے کیوں کہ سوشل میڈیا چند دن ہی کسی کی میزبانی کرتا ہے۔

سوشل میڈیا ہم دانشوراں کے ساتھ ان مذکورہ ناموں سے بھی بڑھ کر المیے کر جاتا ہے۔ سیدھی سی بات ہے کہ فیس بوک پر لکھنے سے پیسے نہیں ملتے اور آپ لائف کرئیر کے طور پر اس کو اپنا نہیں سکتے۔ دوسری طرف فیس بوک آپ کو اس رنگ روپ میں پیش کرے گا جیسے کائینات میں آپ ہی آپ ہیں اور آپ کی ایک چال سے قیامت بپا ہو سکتی ہے۔ آپ محنت مزدوری اور کام کے بغیر روز آتے ہیں اور تھوڑا بہت پڑھ کر اس کو لوگوں کی نظر کرتے ہیں تو تعریفوں کے پل باندھے جاتے ہیں اور آپ کو پر لگ جاتے ہیں۔ جب آپ "واہ واہ” اور کیا خوب لکھا\بولا سے پھولے نہیں سما رہے ہوتے اور کہتے ہیں کہ اسی سے گلشن کا کاروبار چلے گا، اچانک نیٹ پیج ختم ہوجاتا ہے، اپنا پیٹ خالی پاتے ہیں اور نکوڑی جیب کو اس سے بھی زیادہ کنگال۔ تب احساس ہوتا ہے کہ تھوڑی دیر پہلے اس سوشل میڈیا نے جو سر پہ تاج سجایا تھا، اب گدا بنا کر بیٹھا دیا ہے۔ کہاں گئے وہ داد و تحسین کے برستے ڈونگرے؟ کہاں گئ وہ دانش وری کی چمکتی دکان؟

 کچھ علاج اے چارہ گراں اس پیکج، پیٹ اور جیب کا ہے بھی کہ نہیں؟ 

سو کیون نہ کوئی کام کیا جائے؟ محنت کی جائے۔ اپنا کرئیر بنایا جائے۔ چار پیسے کمائے جائیں۔ جہاں ٹیلنٹ ہے، اس کو بروئے کار لا کر اپنا مستقبل سنوارا جائے۔ سوشل میڈیا کو سنجیدہ لیے بغیر صرف دل لگی اور سیر سپاٹے کے واسطے اختیار کیا جائے۔ اور الٹے پاؤں نکلا جائے۔ جتنی جلد یہ حقیقت سمجھ آگئ، اتنا ہی بھلا ہے۔ 

 اس کے علاؤہ چلتے چلتے عرض کرتا چلوں کہ جو لوگ سوشل میڈیا پر دیر و حرم کے جھگڑے مٹانے آتے ہیں، سمجھو کہ جان کے دھوکہ کھاتے ہیں۔ دھوکہ دیتے ہیں۔ بھائی یہ ایسے مسائل ہیں جو لاکھوں کتابوں، مناظروں، بحثوں اور فتووں سے حل نہ ہوئے۔ آپ کی فیس بوک پوسٹ اور کمنٹ سے خاک حل ہوں گے۔ اس سے بہتر تو یہ ہے کہ اپنی رائے کو، کسی پر ٹھونسے بغیر، آرام اور شائستگی سے کہہ کر پتلی گلی سے نکل جاؤ اور پیچھے مڑ کر بھی نہ دیکھو۔ سیدھے جا کر اپنا کام کرو، کام نہیں تو کوئی کتاب پڑھو، کچھ لکھنے بیٹھ جاؤ۔ اگر ایسا موڈ نہیں تو لمبی والک پہ نکل جاؤ۔ چائے کے ڈھابے کا رخ کرو۔ کسی ہم خیال دوست کو کال کرو اور گپ شپ لگاؤ۔ اگر کچھ بھی نہیں تو لمبی تان کر سو جاؤ۔ یقین کرو یہ سارے کام فیس بوک کو سنجیدہ لینے، اس پر دانشوری بگھارنے، لوگوں سے الجھنے اور بحث و تکرار میں حصہ لینے سے کہیں بہتر ہیں۔

Comments are closed.