"سوچوں پر حملہ آور ہونے کی کہانی”

0
69

"سوچوں پر حملہ آور ہونے کی کہانی”
بقلم : شعیب بھٹی
آج سے تقریبا پون صدی پہلے جب ٹی وی سکرین کی ایجاد ہوٸی تو یہ ایک تفریح کا ذریعہ ہی نہیں تھا بلکہ اپنے خیالات دوسروں تک منتقل کرنے کا ذریعے تھا اور معاشرے میں موجود براٸیوں کو دور کرنے کے لیے اس پہ پروگرام نشر کیے جاتے تھے۔ دوسروں تک اپنے خیالات و آرا پہنچانے اور دوسری کی سوچ میں اپنے نظریاتی منتقل کرنے کا عمل ریڈیو کی ایجاد سے ہی شروع ہوچکا تھا اس کو مزید تقویت ٹی وی کی ایجاد نے دی۔
اب اس جدید ٹیکنالوجی(کمپوٹر، انٹرنیٹ، موباٸل) کی ایجادات نےاس کو مزید پھیلایا۔ اب دنیا ایک گاٶں کی حثیت اختیار کرچکی ہے۔
ٹیکنالوجی کی ایجادات نے جنگ کے طریقہ کار بدل دٸیے ہیں۔
شروع دنیا سے اب تک جنگ میں مخالف قوم کو شکست دینے کے لیے افواہوں کا سہارا لیا جاتا تھا تاکہ قوم کو ذہنی طور شکست دی جاۓ اس سے ان کے حوصلے کمزور ہوجاتے تھے۔
دشمن کو عصابی طور پہ کمزور کرنے اور اپنے نظریات کی ترویج کے لیے شروع سے ہی کوٸی نا کوٸی طریقہ اختیار کیا جاتا تھا۔

اب جدید ٹیکنالوجی کے ہوتے ہوۓ یہ کام میڈیا انڈسٹری سے لیا جارہا ہے۔
میڈیا وار کے ذریعے اپنے خیالات کو ڈراموں اور فلموں کے ذریعے بہترین اور پرکشش شکل دے کر دوسروں میں منتقل کیا جارہا ہے۔
ڈراموں کے ذریعے اپنی تاریخ اور مخالف قوم کی تاریخ دیکھاٸی جارہی ہے اور اس میں کرداروں کو مسخ کرکے دیکھایا جاتا ہے اور تاریخ سے ناعلم لوگوں کو آسانی سے بے وقوف بنادیا جاتا ہے۔ میڈیا وار کے ذریعے مخالف حکمرانوں کی ذاتی زندگی کے واقعات میں رنگ بھر کر انکی کردار کشی کی جاتی ہے۔
فلمز اور ڈراموں کے ذریعے عوام کو دشمن کے خلاف کھڑے کرنا اور دشمن ممالک کو انسانیت کا دشمن ثابت کرنے کا کام بہت عرصے سے عروج پہ ہے۔
امریکہ سمیت یورپ کے اکثر ممالک،روس،انڈیا اور اب عرب ممالک بھی اس ساٸبر اور میڈیا وار میں تیزی لاۓ ہیں۔
حالیہ وقت میں بہت سے یورپی ممالک نے اپنے میڈیا اور فلم انڈسٹری کو اسلام مخالف استعمال کیا ہے اور اسلاموفوبیا مہم کو اپنی پہلی ترجیح بنایا ہوا ہے۔ مسلمانوں کی کردار کشی اور مسلمانوں کے پیارے نبی ﷺ کے خلاف کارٹون مقابلےکرواۓ اور سیریز بناٸی گٸی جس سے مسلمانوں کی دل آزاری ہوٸی۔ پوری دنیا کا امن خطرے میں پڑا اور مسلمانوں کے اس احتجاج کو دہشتگردی کہا گیا اور اظہار راۓ کی آزادی کے خلاف گردانا گیا۔ اسی طرح انڈین میڈیا اور فلم انڈسڑی نے بھی اسلام و پاکستان کو نشانے پہ رکھا ہوا ہے۔
انڈیا نے گزشتہ سال "پانی پت” کے نام پر فلم ریلیز کی ہے۔ پانی پت ایک تاریخی لڑاٸی ہے جو افغان بادشاہ احمد شاہ ابدالی نے ہندٶ مرہٹوں کے خلاف لڑی تھی اور اس جنگ میں مرہٹوں کو شکست ہوٸی تھی۔ اس متنازعہ فلم کو انڈیا نے بابری مسجد کی شہادت کے دن ریلیز کیا۔ اس میں احمد شاہ ابدالی کے کردار کو مسخ کرکے پیش کیا گیا ہے۔ افغانستان کے قاٸمقام وزیر خارجہ ادریس زمان نے انڈین سفارتکار ونے کمار کے سامنے اس معاملے کو اٹھایا تھا۔
میڈیا کے ذریعے اسلام دشمنی کے بعد مسلمان نے بھی اس کے ازالہ کی کوشش کی اور عمر بن خطاب پر عمر سیریز بناٸی لیکن علما نے اس کو دیکھنا حرام قرار دیا۔
اب موجودہ وقت میں ترکی سیریز ارطغل کا جادو سر چڑھ کر بول رہا ہے۔
ارطغل سلطنت عثمانیہ کی بنیاد رکھنے والے سلطان عثمان کا والد تھا۔
یہ سیریز ارطغل کی زندگی پر مشتمل ہے۔ قاٸی قبیلے کی سلطنت کے قیام کے لیے جہدوجہد کو اسکا موضوع بنایا گیا ہے۔ 1191 عیسوی کی تاریخ کو ترکی کی بے مثال تاریخی جدوجہد کے طور پر دیکھایا جارہا ہے۔ دوسرے بہت سارے ممالک کی طرح پاکستان میں اسے سرکاری ٹی وی پہ ڈبنگ کرکے دیکھایا جارہا ہے پاکستان میں اس کی شہرت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ اسکی یوٹیوب پر پہلی قسط کو 16 گھنٹوں میں 34 لاکھ افراد نے دیکھا اور پی ٹی وی کے یوٹیوب چینل کو صرف 15 دنوں میں ریکارڈ 10 لاکھ لوگوں نے سبسکراٸب کیا۔
دوسری طرف عرب میں ترک عثمانیہ سلطنت کے حوالے سے ڈرامہ بنایا گیا ہے۔ جس کا نام "ممالکة النار” یعنی آگ کی بادشاہت ہے۔ جسے انگلش میں
#Kingdom_Of_Fire
کہا گیا ہے۔ گزشتہ سال نومبر 17 سے معروف عالمی چینل #MCB پر دیکھایا جارہا ہے۔
ترکی سیریز ارطغل کے مقابلے میں پیش کیا گیا ہے۔ اس ڈرامے کو مصری راٸٹر نے لکھا، برطانوی ڈاٸریکٹر نے ڈاٸیریکٹ کیا، تیونس میں شوٹ ہوا، متحدہ عرب امارات نے پروڈیوس کیا ہے۔ اس میں سلطنت عثمانیہ کی مصر پر قبضہ اور سلیم اول کے ہاتھوں مملوک سلطنت کے خاتمے کی منظر کشی کی گٸی ہے۔
یاد رکھیں مملکوک سلاطین بھی ترک ہی تھے۔

اسی طرح مصر میں بھی ایک سیریز یکم رمضان سے شروع کی گی جس کا نام "النہایہ” ہے۔ جوکہ مستقبل کے بارے میں ہے جب 2120ٕ میں امریکہ کے تقسیم اور برباد ہوجانے کے بعد صیہونی ریاست اسراٸیل تباہ کردی جاتی ہے۔ کہنے کو تو یہ ایک ڈرامہ ہے لیکن اس سے اسراٸیل کے پیٹ میں مروڑ اٹھ رہے ہیں اور اسراٸیلی وزیر خارجہ نے مصری صدر عبدالفتاح السیسی کو مخاطب کرکے اسے رکوانے کا کہا ہے۔ اس ڈرامے کو پروڈکشن کمپنی سینرجی نے تیار کیا ہے اور اسے معروف ٹی وی چینل (آن) پر دیکھایا جارہا ہے۔
دوسری طرف یکم رمضان کو ہی عرب ممالک میں ایک ڈرامے کی پہلی قسط نشر ہوٸی۔ جس کا نام "ام ہارون” ہے۔ اسکی 30 اقساط ہیں یہ ڈرامہ کویت کی پروڈکشن کمپنی نے بنایا، اس میں کام کرنے والوں کا تعلق بحرین سے، اس میں کرداروں میں رنگ بھرنے والے اداکاروں کا تعلق کویت سے ہے اور اس کی شوٹنگ متحدہ عرب امارات میں کی گٸی ہے۔
اس ڈرامے کے بارے کہا گیا کہ یہ عرب اسراٸیل تعلقات کے متعلق ہے لیکن یہ کہانی بحرین کی ایک یہودی نرس کے متعلق ہے جو فلسطین سے جبرا نکالے گٸے خاندانوں کا علاج کرتی ہے جو بحرین اور کویت میں پناہ لیتے ہیں اس میں ام ہارون کا کردار حیات الفہد نامی مسلم اداکارہ نے کیا ہے۔
یہ حالیہ وقت میں مقبول اور متنازعہ ڈراموں کا تعارف ہے۔ دنیا کے بیشتر ممالک اسی طرح عوامی تاثر کو تبدیل کرنے اور نظریات کی منتقلی کے لیے میڈیا اور فلم انڈسڑی کا سہارا لیتے ہیں۔ تاریخ کو توڑ مروڑ اور جھوٹ کو سچ کے ساتھ ملا کر کہانیاں بنا کر ممالک اپنے مقاصد کی تکمیل کرنے کے لیے ایسا کرتے ہیں۔ فلمز اور ڈراموں کے ذریعے سوچوں پہ یلغار کا یہ سلسلہ اس وقت مکمل عروج پہ ہے۔
دنیا میں میڈیا جنگ کے ایک مہرے کے طور پہ اپنا لوہا منوانے میں کامیاب رہا ہے۔ دنیا کے تمام ممالک اس کو ہتھیار کے طور پہ استعمال کررہے ہیں۔

Leave a reply