اس بات میں کوئ شک نہیں کہ ڈیجیٹل سوشل میڈیا ،بطور ایک موثر قوت اور معاشرے کی آواز کے،اپنے آپ کو منوا چُکا ہے۔
اس کا ثبوت یہ ہے کہ ہمارا الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا اب سوشل میڈیا کی پیروی کرنے پر مجبور ہے
آپ شام کو ٹی وی پرکسی بھی ٹاک شو کو دیکھ لیں۔وہاں سوشل میڈیا کے ٹرینڈز پر پروگرام کیے جا رہے ہوں گے۔سوشل میڈیا پر چھاۓ رہے دن بھر کے موضوعات پر بات ہو رہی ہو گی۔
سوشل میڈیا کے اس طرح اہمیت اختیار کر جانے سے بطور ایکٹوسٹ ہم سب کی زمہ داریاں بھی بڑھ جاتی ہیں۔ہمیں اس فورم کا مثبت استعمال کرنا چاہیے۔تنقید کسی پر بھی کی جا سکتی،چاہے وہ حکومت ہو یا اپوزیشن،تنقید ضرور کریں،اسی تنقید سے معاشروں اور ملکوں کی اصلاح ہوتی ہے۔
لیکن تنقید میں شائستگی کا پہلو نظر انداز نہیں ہونا چاہیے۔گالی گلوچ کو تنقید نہیں کہا جاسکتا۔آپ کسی کے لیڈر کو گالی دیں گے تو وہ آپ کے لیڈر کو مغلفات سے مخاطب کرے گا۔اس سے جہاں معاشرے میں منافرت اور کدورت بڑھے گی،وہیں آپ زاتی دشمنیاں بھی پال لیں گے۔جس سے کسی کا بھی فائدہ نہیں ہو سکتا۔اپوزیشن اور حکومت کے غلط کاموں پر تنقید ضرورکریں۔مثبت تنقید زندہ معاشروں کی نشانی ہوتی ہے۔آپکی تحریرکے کمنٹس میں جو لوگ سُلجھے ہوۓ طریقے سے تنقید کرتے ہیں۔اُن کا مناسب جواب دیں۔جو لوگ حد کراس کرتے ہیں یا اپنی تربیت کا اظہار کرتے ہیں۔اُن کی بے ہودگی پر یا تو خاموشی اختیار کر لیں یا پھر FIAسائبر ونگ جیسے اداروں کو رپورٹ کریں۔
گالی گلوچ زیادہ تر فیک اکاونٹس سے کی جاتی ہے،فیک اکاونٹس والے کبوتر کی طرح آنکھیں بند کر کے یہ سمجھتے ہیں کہ انکو کوئ دیکھ نہیں سکتا۔
حالانکہ ایسی بات قطعا” نہیں ہے،موجودہ دور میں یہ بدمعاشی نہیں چل سکتی۔اداروں کے لیے ایسے فسادیوں کو پکڑنا بائیں ہاتھ کا کھیل ہوتا ہے۔یہ لوگ جب پکڑے جاتے ہیں تو رو رو کر پاوں پکڑ رہے ہوتے ہیں کہ معاف کر دیا جاۓ۔تو اس سے بہتر نہیں ہے کہ بندہ گاجریں ہی نہ کھاۓ تاکہ پیٹ درد سے بچا جا سکے۔
اللہ تعالی نے اگر آپ کو قلم کی طاقت دی ہے تو اسکا اسعمال اپنے ملک کی بہتری اور معاشرے کی بہتری کے لیے کریں۔
ریاستی مفادات کو اپنے زاتی یا سیاسی نظریات کی بھینٹ مت چڑھائیں۔اس ارض پاک کا ہم سب پہ قرض ہے،اس ملک کی نظریاتی سرحدوں کی حفاظت کر کے اپنا یہ قرض اتارنے کی کوشش کیا کریں تا کہ آنے والی نسلوں کو ایک بہتر،مضبوط اور خوشحال پاکستان مل سکے #
@lalbukhari
Shares: