آج کل ہر بچے بچے کے پاس موبائل نظر آتا ہے صرف یہی نہیں تین اور چار سال کے بچے بھی اس وقت حرکت میں آتے ہیں جب ان سے وعدہ کیا جائے کہ بھائی آپکو موبائل دینگے ۔۔۔۔۔
یوں کہنا ٹھیک رہے گا کہ کرونا سے بڑا وائرس یہ موبائل ہے !!! یہ موبائل صرف انسان کو نہیں ختم کر رہا باقی سب کچھ ختم کرتا جارہا ہے ۔۔۔۔۔۔
یوں تو اسکے جہاں نقصان ہیں وہاں فائدے بھی بہت ہیں ۔۔۔۔۔۔ نوجوان لڑکے لڑکیاں یہاں 24 میں سے 14 گھنٹے آرام سے موبائل کو دیتے ہیں۔ ۔۔۔۔۔بلکے یوں کہنا درست رہے گا کہ موبائل آج کے نوجوان کو دس گھنٹے دوسری مصروفیات کیلئے دے دیتا ہے ۔۔۔۔ جس میں ہمارے نوجوان سونا کھانا پینا اور اگر خرافات میں پڑ جانے کی وجہ سے انسے توفیق عبادات سلب نہیں ہوئی ہیں تو وہ کرتا ہے ۔۔۔۔۔
لوگوں کی مختلف اقسام ہیں کچھ اس موبائل کو اپنے فائدے کیلئے بھی استعمال کرتے ہیں یہ فائدے دنیوی بھی ہیں اور دینوی بھی ۔۔۔۔ کچھ لوگ اسکے ذریعے سے حلال رزق حاصل کر رہیں ہیں تو کچھ اپنے نامہ اعمال کو بھاری کر رہے ہیں۔ اب قارئین سوچ رہے ہونگے کہ ان دو باتوں کو ساتھ ذکر کرنے سے میرا مقصد کیا ہے؟؟ تو مختصر یہ کہ مختلف ایسی ایپلیکیشنز متعارف ہوئی ہیں جنکے ذریعے سے لوگ پیسہ بنا رہے ہیں ۔۔۔۔ اور بس یہی نہیں بلکہ اس میں اب ایک پڑھا لکھا طبقہ ملوث ہوگیا ہے ۔۔۔۔ چلیں ٹھیک ہے ایک ایپلیکیشن ہے آپ اسے انسٹال کرتے ہیں اور پھر اس پر اچھی ویڈیوز بناتے ہیں یا جیسی بھی بناتے ہیں یہ آپ پر ہے۔ اور ظاہر ہے کہ اپ
اپنے ہر عمل کے زمہ دار خود ہیں مگر کیا ہم اتنے باعمل ہیں کہ دوسروں کی بداعمالیوں کا بوجھ بھی اٹھا سکیں؟ ٹک ٹاک اور اسنیپ ویڈیو آپ نے شیئر کیں اور آپکے اکاؤنٹ میں پیسے آئے اور یوں لوگوں کو زیادہ سے زیادہ انوائیٹ کر کے آپ زیادہ سے زیادہ کمائینگے ۔۔۔۔۔ اور یاد رہے کہ آپ اس دنیا میں کمانے اور کھانے نہیں آئے تھے بلکہ بندگی کیلئے ہم بھیجے گئے جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے
اَلَّـذِىْ خَلَقَ الْمَوْتَ وَالْحَيَاةَ لِيَبْلُوَكُمْ اَيُّكُمْ اَحْسَنُ عَمَلًا ۚ وَهُوَ الْعَزِيْزُ الْغَفُوْرُ (الملک:٢)
جس نے موت اور زندگی کو پیدا کیا تاکہ تمہیں آزمائے کہ تم میں سے کس کے کام اچھے ہیں اور وہ غالب بخشنے والا ہے۔

یعنی جینے کیلئے پیسے کی ضرورت ہے ہم پیسے کہ نہیں پیسہ ہمارا غلام ہے ہم نے اب جتنے لوگوں کو اس پر انوائیٹ کیا اگر وہ نیکی کرتے ہیں اسکے ذریعے تو ظاہر ہے ہمارے اس اکاؤنٹ میں بھی اضافہ ہوگا جو ہمیں روز آخرت ملے گا۔۔۔۔۔ اور جہاں کوئی برائی کرے گا تو اس کی برائی کا بوجھ بھی ہم اٹھا لیں کیا ایسا ممکن ہے؟؟ ارشاد باری تعالیٰ ہے کہ :
لِیَحْمِلُوا اٴَوْزَارَھُمْ کَامِلَةً یَوْمَ الْقِیَامَةِ وَمِنْ اٴَوْزَارِ الَّذِینَ یُضِلُّونَھُمْ بِغَیْرِ علم ۔اٴَلاَسَاءَ مَا یَزِرُونَ (النحل:٢۵)
"روز قیامت یہ لوگ اپنے گناہوں کا بوجھ پوری طرح اپنے دوش پر اٹھائیں گے اور ایک حصہ ان لوگوں کے گناہوں کا بھی کہ جنہیں جہالت کی وجہ سے انہوں نے گمراہ کیا ہے
جان لو کہ وہ بد ترین بوجھ اور ذمہ داری اپنے کاندھوں پر اٹھا ئے ہوں گے ”
یوں بھی آج ہم سب فرائض بمشکل انجام دیتے ہیں گناہوں سے دل سیاہ ہے اور یوں شیئرنگ کر کے گناہوں میں مسلسل اضافہ کر رہے ہیں ۔۔۔
پھر صرف یہ ویڈیو کی ایپلیکیشنز ہی نہیں اور بھی سوشل میڈیا کی بڑی ایپلیکیشنز جو کے نوجوان نسل اپنی بربادی کیلئے استعمال کرتی ہے ۔۔۔۔ صرف اخروی ہی نہیں دنیوی بربادی کا سبب بھی ہوتا ہے ۔۔۔۔۔۔۔
میٹرک اور انٹر کے سنہرے وقت کو جس میں انکی زندگی بنتی ہے سوشل میڈیا پر محبتوں میں برباد کردیے ہیں جب انھیں یونیورسٹی کے لئے تعین کرنا ہوتا ہے تب والدین انکے لئے سائیکالوجسٹ کا انتظام کر رہے ہوتے ہیں ۔۔۔۔۔
اب آپ سوچ رہے ہونگے کہ دماغی صحت یہاں کہاں سے آگئی تو جناب کہا جاتا ہے کہ نسل نو کا اسمارٹ فونز اور کھانے پینے کی طرف رجحان اتنا ہے کہ وہ اپنی صحت کی طرف متوجہ نہیں ہوپاتے اور انکی جسمانی اور ذہنی صحت مسلسل گرتی جارہی ۔۔۔۔ پھر سوشل میڈیا پر مختلف باتوں پر ری ایکشن بھی ضروری سمجھا جاتا ہے جس سے عدم برداشت کے تناسب میں بھی اضافہ کوریا ہے ۔۔۔۔۔۔۔خاندان جو کبھی ساتھ ملکر بیٹھا کرتے تھے اب وہ وقت بھی موبائل کھا جاتا ہے اس وجہ سے اپنے معاملات بڑوں سے ڈسکس کرنا بھی اس نسل نے نہیں سیکھا۔۔۔۔۔ ایک ہی چیز ایک ہی معاملے کو سوچ سوچ کر مکمل ڈیپریسڈ نسل ہے یہ اور میں اگر اپنے ارد گرد کا مشاہدہ کروں تو اکثر وہ لوگ جو بس ضرورت کے تحت سوشل میڈیا کا استعمال کرتے ہیں انکی شرح ڈیپریسڈ ہونے کی ان نوجوانوں سے کم ہے جو سوشل میڈیا میں ڈوبے بیٹھے ہیں ۔۔۔۔۔ اچھا ہے کہ ہم اس نعمت کو نعمت ہی کی طرح استعمال کریں اسے زحمت نہ بنائیں ۔۔۔۔

@timazer_K

Shares: