جیسے جیسے ڈالر کی اڑان میں اضافہ ہو رہا ہے۔ آئی ایم ایف کے قرضوں کا حجم بھی ویسے ویسے بڑھتا جا رہا ہے ۔ جس کو کم کرنے کیلئے حکمران مزید قرضے لینے پہ مجبور ہیں ۔ اور ماہر معشیات کے مطابق پاکستان کی معشیت اب اس مرحلے میں داخل ہو گئی ہے جہاں اب قرضوں کی ادائیگی بھی مزید قرض لے کر ہوگی۔ اور ان قرضوں سے اب ایکسپورٹ میں کوئی خاطر خواہ اضافہ نہیں ہوگا ۔ اگر یہی سلسلہ جاری رہا تو آئندہ چند برسوں میں قرضے کی قسطیں ہمارے مجموعی بجٹ سے بھی بڑہ جائیں گی ۔ صرف یہی نہیں مصیبت برائے مصیبت ان قرضوں کے ساتھ بڑھنے والا سود بھی ہے ۔
مارچ 2019ء میں ہمارے بیرونی قرضے تقریباً 105 ارب ڈالر تک تھے جس میں 11.3 ارب ڈالر پیرس کلب، 27 ارب ڈالر دوست ممالک اور دیگر ڈونرز، 5.7 ارب ڈالر آئی ایم ایف اور 12 ارب ڈالر کے بین الاقوامی یورو اور سکوک بانڈز شامل ہیں۔ ہمارا آدھا سے زیادہ ریونیو قرضوں اور سود کی ادائیگی میں چلا جاتا ہے جس کی وجہ سے تعلیم، صحت، پینے کے صاف پانی اور سماجی شعبوں کے ترقیاتی منصوبوں کے اخراجات پورے کرنے کیلئے فنڈز دستیاب نہیں۔ ملکی قرضوں کے باعث 2011ء میں ہر پاکستانی 46 ہزار روپے، 2013ء میں 61 ہزار روپے اور آج 1 لاکھ 81ہزار روپے کا مقروض ہو چکا ہے۔ لمحہ فکریہ تو یہ ہے کہ معیشت کا احیا تو کجا‘ الٹا ہماری آزادی اور بقا خطرے میں ہے۔ دراصل یہ اقتصادی دانشور ایک سازش کے تحت ہمیں سمجھانے پاکستان آتے ہیں اور ہر بار ہمیں ایٹمی پروگرام، کشمیر اور دفاعی بجٹ میں کمی کرنے کی تلقین کرکے قرضوں کا سلسلہ دوبارہ چالو کرا دیتے ہیں۔ میرے خیال سے اقتصادی اور سیاسی تنہائی پاکستان کے حق میں خوش بختی کا ذریعہ ثابت ہو سکتی ہے۔ میرے یقین کے پیچھے ٹھوس دلائل ہیں
اگر ہم سود کو ہی نہ چھوڑیں گے تو ہم براہ راست اللہ سے جنگ کرنے میں شامل ہیں ۔ عالمگیر سودی نظام کی جڑیں ہمارے اندر تک پیوست ہوگئی ہیں ۔ ہم اس سودی نظام کی گرفت سے آزاد نہ ہو گے تو اللہ کی مدد بھی ہمیں کبھی حاصل نہ ہوگی ۔ تاریخ کا مطالعہ کرنے سے معلوم ہوگا کہ رسول اللہ ﷺ نے شعیب ابی طالب میں رہ کر اقتصادی مقا طعے کا سامنا کیا ۔ اور چند سالوں بعد جنگ احزاب میں دشمنانِ اسلام کی متحدہ قوت کو پسپا کر دیا۔ تو یہ کہنا تو سراسر زیادتی ہوگی کہ ہم اس نظام کو کم از کم پاکستان سے ختم نہیں کر سکتے۔
پہلی بات تو یہ کہ پاکستان ایک ایٹمی طاقت ہے اور ایک زرعی ملک بھی ۔ اول تو اسے سیاسی طور پہ تنہا رکھنا ممکن ہی نہیں ۔ لیکن پھر بھی اگر ایسا کچھ ہوتا بھی ہے عین ممکن ہے تو تیل کی دولت سے مالا مال ملک ہمارا قرض اتارنے میں ہماری مدد ضرور کریں گے اگر وہ ممالک مغربی افواج پہ اربوں ڈالر خرچ کر سکتے ہیں تو ہماری مدد کیوں نہیں کریں گے ۔ دوسری بات پاکستان میں قیادت کا بحران اسی وجہ سے پیدا ہوا کہ ہم غیر ملکی طاقتوں کی جکڑ میں ہیں ۔ اور عالمی طاقتوں نے اپنے ایجینٹ اور کرائے کے لیڈر ہم پہ مسلط کر رکھے ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ 73 سال کے اس طویل عرصے میں کوئی ایسا رہنما پیدا نہ ہو سکا ۔ جو حقیقی معنوں میں لیڈر کہلانے کے لائق ہو ۔ پاکستان کی تنہائی عوامی مزاحمت کی رہنمائی کرنے والی حقیقی قیادت کو ابھارے گی
دوسری بات جب بھی کسی شخص کو یا کسی ریاست کو تنہا کیا جاتا ہے تو وہ اپنے وسائل اور صلاحیتیں بروئے کار لاتے ہوئے اپنا لوہا ضرور منواتے ہیں ۔ دنیا میں وہ تمام ممالک جنہیں دیفالٹ قرار دے کر انہیں سیاسی طور پہ تنہا کیا گیا وہ اپنے قدموں پہ کھڑے ہوگئے ۔اس کی ایک زندہ مثال چین ہے جو پاکستان کے بعد وجود میں آیا ۔ لیکن آج اسکی معشیت سے لے کر سیاسی حالت سب ہی قابل رشک ہیں ۔ ایران عراق لیبیا اور سوڈان کو تنہا کیا گیا لیکن وہ سب ایک مضبوط بن کر ابھرے ۔
….continue