لاہور:سعودی عرب میں کچھ ہونے جارہا ہے:مبشرلقمان نے خبردارکردیا،اطلاعات کے مطابق پاکستان کے سنیئر صحافی مبشرلقمان جو کہ مشرق وسطیٰ ، جنوبی ایشیا اور یورپ کے امورکے ماہرمانے جاتے ہیں ، ان کا کہنا ہے کہ یاد رکھیں بہت جلد سعودی عرب میں کوئی بڑی تبدیلی ہونے جا رہی ہے، محمد بن سلمان کن مشکلات میں گھر چکا ہے۔
مبشرلقمان کہتے ہیںکہ ترکی اور ایران نے کیسے اس کی ناک میں دم کر دیا ہے نئی آنے والی امریکی انتظامیہ اس کے لیئے کتنی خوفناک ثابت ہو سکتی ہے، شاہ سلمان نے اپنی زندگی میں اسرائیل کو تسلیم کرنے سے انکار کر دیا ہے شاہی خاندان اس حوالے سے تقسیم ہو چکا ہے اور اختلافات جاری ہیں۔ کیا مشرق وسطہ تاریخ کے نازک ترین دور سے گزر رہا ہے۔؟
ان کا کہنا تھا کہ اس وقت سعودی عرب کے شاہی خاندان کو دیکھیں تو اس میں اسرائیل کے حوالے سے واضح تقسیم نظر آ رہی ہے۔ ایک طرف محمد بن سلمان کی خواہشات اور ترقی کا مشن ہے تو دوسری طرف اس بات کا اسرائیل بھی اندازہ لگا چکا ہے کہ شاہ سلمان کی زندگی میں سعودی عرب کا اسے تسلیم کرنا مشکل ہے۔ جبکہ سعودی شہزادے محمد بن ترکی الفیصل کا اسرائیل کے خلاف کھل کر بولنا جبکہ شہزادہ بندر کا اسرائیل کی حمایت میں بولنا ،شاہی خاندان میں اس حوالے سے واضح تقسیم کا اشارہ دے رہا ہے۔ یہ معاملہ سعودی مملکت، اور شاہی خاندان کے لیئے فیصلہ کن ثابت ہو سکتا ہے۔
مبشرلقمان نے انکشاف کیا کہ جس میں سعودی عرب اسرائیل کو تسلیم کرنے کے بعداندرونی خلفشار اورشدت پسندی کا شکار ہو سکتا ہے یا پھر محمد بن سلمان شاہ سلمان کی موت کے بعد طاقت کے زور پر امریکہ کی مدد سے اپنے خلاف اٹھنے والی آواز کو دبا سکتا ہے۔اور بیرونی طور پر ایران کے خلاف ایک مضبوط بلاک بنانے میں کامیاب ہو سکتا ہے۔سعودی عرب کو اس وقت بیرونی طور پر کئی خطرات کا سامنا ہے ایک طرف ترکی اس کے لیئے مشکلات پیدا کر رہا ہے جبکہ دوسری طرف ایران کی یمن، شام، عراق اور لبنان میں proxyاس کی نیندیں اڑا رہی ہیں۔ محمد بن سلمان سمجھتا ہے کہ اسرائیل اسے نہ صرف بائیڈن کے قہر سے بچا سکتا ہے بلکہ ایران کے خلاف بھی ایک موثر اتحاد بنایا جا سکتا ہے۔یہی وجہ ہے کہاس وقت مشرق وسطہ تاریخ کی بڑے تبدیلی سے گزر رہا ہے۔ اسرائیل جو عرب دنیا میں نفرت کا نشان سمجھا جاتا تھا اب پورے عرب میں اپنا اثرورسوخ بڑھا رہا ہے۔ شام، عراق،لبنان اور یمن خانہ جنگی کا شکار ہیں اور اسرائیل کے خلاف مفلوج ہو چکے ہیں۔ ترکی ایک طرف امریکہ کے غصہ سے بچنے کے لیئے اسرائیل کے قریب آرہا ہے جبکہ دوسری طرف اخوان المسلمین جیسی تنظیموں کو قطر کے ساتھ مل کر سپورٹ کر رہا ہے جسے سعودی عرب سمیت دیگر گلف ممالک اپنی بادشاہتوں کے لیئے خطرہ سمجھتے ہیں۔
مبشرلقمان نے مزید انکشاف کیا کہ جس میں اسے روس کی مدد حاصل ہے جبکہ ایران اور چین اس خطے میں اسرورسوخ کے لیئے الگ سے کوشش کر رہے ہیں۔ ترکی کے سعودی عرب، عرب امارات کے علاوہ اس کے اتحادی مصر کے ساتھ بھی تعلقات خراب ہیں جبکہ شام ، لیبیا، قطرمیں اپنا اثر و رسوخ بڑھا چکا ہے۔تمام معاشی پابندیوں کے باوجود ایران ڈٹا ہوا ہے اور عراق، شام اور لبنان میں حزب اللہ کی صورت میں اپنے قدم جمائے ہوئے ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ اس صورت میں خلیجی ممالک، مصر اور دیگر اتحادی اسرائیل کے ساتھ اتحاد بنا کر اس کی فوجی طاقت، سیاسی اسرورسوخ اور انٹیلی جنس کی صلاحیتوں سے فائدہ اٹھانا چاہتے ہیں۔صدر ٹرمپ وائٹ ہاوس سے رخصت ہونے سے پہلےامریکہ اور مشرق وسطہ کے لیئے مصیبتوں کا پہاڑ کھڑا کر کے جائیں گے۔حالات اس حد تک خراب کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے کہ اسرائیل کی مدد سے ٹرمپ اپنے جانے سے ایک ہفتہ پہلے بھی ایران سے شرارت کی پلاننگ کر رہے ہیں۔ تاکہ حالات اس نہج پر پہنچ جائیں کہ بائیڈن کے لیئے ایران کوکوئی بھی رعایت دینے کا آپشن نہ رہے۔ اس سلسلے میںگزشتہ ایک سال سے کئی کوشش کی جا رہی ہیں جس میں قاسم سیلیمانی سے لے کر محسن فخری زادی تک تمام ااپشن استعمال کیئے گئے ہیں۔
اسرائیل کی فوج کو ہر طرح کی صورتحال سے بنٹنے کے لیئے تیار کیا جا رہا ہے جبکہ اسرائیل کی آبدوزوں کی گلف کی طرف روانگی کی خبریں بھی لیک کی جارہی ہیں۔
وہ کہتے ہیں کہ کئی دفعہ ایسے حالات میں یہ اندازہ لگانا مشکل ہو جاتا ہے کہ اصل نشانہ ایران ہے یا سعودی عرب۔؟مشرق وسطہ پر نظر ڈالی جائے تو ہر طرف مسلمان مسلمان کا گلا کاٹ رہا ہے ایک مسلم ملک دوسرے مسلم ملک کی جڑیں کھوکھلی کر رہا ہے اور ہر طرف سازشوں کا ایسا جال ہے کہ اس میں ایک ایک کر کے تمام مسلم ممالک دھنستے جا رہے ہیں
بیسوی صدی کے مشرق وسطہ پر نظر ڈالی جائے تو پہلے سلطنت عشمانیہ کا خاتمہ ہوتا ہے۔جس کے ساتھ ہی فرانس، امریکہ ، روس اور برطانیہ کا پوری دنیا پر تسلط قائم ہو جاتا ہے۔ اسرائیل کا قیام عمل میں لایا جاتا ہے۔ تمام عرب ممالک مل کر بھی اسرائیل سے ہار جاتے ہیں اور اس کا تسلط مزید مضبوط ہو جاتا ہے۔اسرائیل کے ساتھ معاملہ کا حل نکالتے نکالتے خود یاسر عرفات اسرائیل کو تسلیم کر لیتے ہیں۔
ایک ایک کر کے اسرائیل کے خلاف متوقع خطرہ سمجھے جانے والےتمام ممالک کو تباہ کر دیا جاتا، عرب سپرنگ رہتی سہتی کسر پوری کر دیتی ہے، داعش کی تباہی کسی سے چھپی ہوئی نہیں ہے جنہوں نے مسلمانوں کے ہی خلاف طاقت کے جوہر دیکھائے۔اور اب سعودی عرب، اس کے خلیجی اتحادی،مصر اور اسرائیل ایران کے خلاف فیصلہ کن معرکہ کی تیاری کر رہے ہیں۔ جس میں میدان جنگ صرف مسلم ممالک ہو ں گے۔
سعودی عرب اس وقت اپنے لیئے دو بڑے خطرات دیکھ رہا ہے ایک ایران اور دوسرا ان کی بادشاہتوں کے لیئے بڑھتا ہوا سیاسی اسلام کا خطرہ جو اخوان المسلمین کی صورت میں ان کے سر پر منڈلا رہا ہے۔ یہ خطرہ صرف بادشاہتوں کے لیئے ہی نہیں بلکہ مصر جیسی جمہوریتوں کے لیئے بھی درد سر بنا ہوا ہے جسے طیب اردگان کا ترکی ان کے سر پر سوار کر کے رکھنا چاہتا ہے۔
جبکہ بائیڈن انتظامیہ کی طرف سے ایران کے ساتھ دوبارہ جوہری معاہدے میں شامل ہونے کی پیش رفت علاقے کو اشتعال انگیزی اور غیر متوقع واقع کی طرف لے جا سکتی ہے۔جبکہ بائیڈن نے انتخابات سے پہلے اعلان کر دیا تھا کہ وہ سعودی عرب کے ساتھ ہتھیاروں کی ڈیل ہمیشہ کے لیئے ختم کر دے گا۔دوہزار پندرہ میں امریکہ نے اوبامہ کی سربرائی میں یمن میں ایران کے خلاف اتحاد بنایا تھا۔ جس سے سعودی عرب کی فوجی مہم جوئی کو بڑی سپورٹ ملی۔
سعودی عرب نے یمن میں سویلین آبادی کو بڑی بے دردی سے نشانہ بنایا جس کا الزام اوبامہ پر آتا ہے لیکن یہ بات یہاں نہیں رکی اور اس کے بعد ٹرمپ نے جیت کے سعودی عرب کا دورہ کیا اور اپنے پہلے دورہ سعودی عرب میں شاہ سلمان کے ساتھ ایک سو دس ارب ڈالر کی ڈیل کی۔ان امریکی ہتھیاروں نے یمن میں ناقابل بیان ظلم کی کہانیوں کو جنم دیا۔ یہ ہتھیار گھروں، سکولوں، بچوں سے بھری ہوئی بسوں سمیت ہر جگہ استعمال ہوئے اور سعودی عرب نے امریکی معاہدے کی خلاف ورزی کی مگر ٹرمپ نے محمد بن سلمان کو کھلی چھٹی دیئے رکھی۔
امریکی کانگریس میں بھی اس حوالے سے بہت مخالفت پائی جاتی ہے بائیڈن نے دو ہزار انیس میں ایکDebate میں وعدہ کیا تھا کہ اگر وہ الیکشن جیت گئے تو سعودی وار کرائم کی نشاندھی کریں گے، اسلحہ کی ڈیل کینسل کریں گے، جمال خشوگی کے خون کی قیمت چکانی پڑے گی اور محمد بن سلمان کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ موجودہ حکمرنواں میں بہت کم Social redeeming valueہیں۔ او ر وہ یمن میں بچوں کے قتل کا بدلہ لیں گے۔ بات صرف بائیڈن تک محدود نہیں ہے امریکہ میں محمد بن سلمان کے خلاف بہت نفرت پائی جاتی ہے۔ اس بحث میں کسی بھی دوسرے امیدوار نے بائیڈن سے اختلاف نہیں کیا اور نہ ہی سعودی عرب کے دفاع میں آیا ۔ سپیکر آف دی ہاوسNancy plosy نے اتنی نفرت کا اظہار کیا کہ سعودی عرب کے خلاف ووٹ اور سپورٹ کا وعدہ کر ڈالا۔Democrats or republican نے مل کر یمن میں جنگ بندی کی قرار داد پاس کی۔
دو ہزار آٹھ کے ایک سروے میں 75%امریکیوں نے امریکہ کی یمن وار میں شمولیت کی مخالفت کی۔ صرف تیرہ فیصد نے سعودی عرب کو اسلحہ فروخت کرنے کے حق میں رائے دی۔
مبشرلقمان کہتے ہیں کہ ایک طرف محمد بن سلمان کے خلاف امریکی عوام میں اتنی نفرت پائی جاتی ہے دوسری طرف نئی امریکی انتظامیہ اسے مزہ چکھانے پر تلی ہوئی ہے۔ ایران ایک طرف سے ترکی دوسری طرف سے گھیر رہا ہے۔ جبکہ شاہی خاندان میں اقتدار کی جنگ الگ سے میدان گرم کیئے ہوئے ہے۔ اس صورتحال میں ہر روز محمد بن سلمان پر پریشر بڑھ رہا ہے اور سعودی عرب کے مستقبل کے لیئے سال2021 انتہائی اہمیت کا ھامل ثابت ہو سکتا ہے۔








