سورۃ کہف فضائل، عبرت و نصیحت۔ تحریر: نصرت پروین

0
45

سورۃ کہف قرآنِ کریم کی عظیم سورت ہے۔ کہف غار کوکہتے ہیں اس سورت میں غار والوں کے قصے کی مناسبت سے اسے "کہف” کہتے ہیں۔ یہ سورۃ اس وقت نازل ہوئی جب مسلمانوں پر اہلِ مکہ کا ظلم وستم انتہا کو پہنچ رہا تھا تا کہ اصحابِ کہف کا واقعہ سنا کر مسلمانوں کی ہمت افزائی کی جائے وور انہیں بتایا جائے کہ ان سے پہلے مسلمانوں پر اس سے زیادہ ظلم کیا گیا۔ ان کے پائے استقامت میں تزلزل نہیں آیا۔ (تیسیرالرحمن:832/1)
یہ سورت بہت سے فضائل پر مشتمل ہے۔
سیدنا ابودرداء رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس شخص نے سورۃ کہف کی ابتدائی دس آیات حفظ کر لیں، وہ فتنہ دجال سے محفوظ رہے گا۔ (صحیح مسلم:1883)
جو اس کی تلاوت کرے گا آئندہ جمعے تک اس پر خاص نور اور روشنی باقی رہے گی۔ (صحیح البانی، صحیح الجامع الصغیر:6470)
حافظ ابن حجر عسقلانی رحمہ اللّٰہ نے صفد کے قاضی محمد ابن عبدالرحیم العثمانی کی تحریر دیکھی جس میں لکھا تھا:
مجھے امیر سیف الدین الحسامی نے بتلایا کہ میں ایک دن صحرا کی طرف نکلا تو علامہ ابن دقیق العید رحمہ اللّٰہ کو ایک قبر پر کھڑے دیکھا؛
وہ روتے ہوئے پڑھ رہے تھے اور اور دعا کر رہے تھے۔ میں نے پوچھا: کیا ماجرا ہے؟ تو فرمایا: اس قبر میں مدفون شخص میرا شاگرد ہے اور مجھ سے پڑھا کرتا تھا؛
اس کی وفات ہوگئی تو رات مجھے خواب میں ملا ؛ میں نے حال احوال دریافت کیا تو کہنے لگا: جب آپ لوگوں نے مجھے قبر میں دفنایا تو ایک دھاری دار کتا آ دھمکا، جیسے کوئی درندہ ہو؛ وہ مجھ پر غرانے لگا جس سے میں بری طرح خوف زدہ ہو گیا۔ اتنے میں بہت ہی خوب صورت حلیے والا ایک بڑا مہربان سا شخص آیا اور اس کتے کو دھتکار کر وہاں سے بھگا دیا ۔ میں نے پوچھا: آپ کون؟ تو کہا: میں تیرا وہ ثواب ہوں جو تو جمعے کے دن سورت کہف کی تلاوت کر کے کماتا تھا۔
(الدرر لابن حجر، 5: 325؛ البدر الطالع للشوکانی، 2: 213)
اس کو پڑھنے سے گھر میں سکینت اور برکت نازل ہوتی ہے۔ سیدنا براء بن عازب کہتے ہیں کہ ایک شخص نے سورۃ کہف پڑھی ان کے گھر میں گھوڑا بندھا ہوا تھا۔جو بدکنے لگا تو انہوں نے سلام پھیرا (کیونکہ وہ نماز میں تلاوت کر رہے تھے) کیا دیکھتے ہیں کہ ابر ہے جو سارے گھر میں چھا گیا ہے انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ذکر کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اے فلاں تو قرآن پڑھتا رہ یہ سکینت ہے۔ جو قرآن پڑھنے کی وجہ سے اتری۔ (صحیح بخاری:3614) سورہ کہف جن واقعات پر مشتمل ہے وہ بہت ہی قابل اور عبرت و نصیحت والے ہیں۔ اللہ نے چار واقعات کے زریعے چار اہم اسباق دئیے ہیں۔
1۔ دین میں فتنے سے محفظ رہنے کے لئے اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھامنا ہے اور نیک لوگوں کی صحبت اختیار کرنا ہے۔
2۔ مال کے فتنے سے محفوظ رہنے کا طریقہ یہ ہے کہ انسان اس دنیا کی حقیققت کو پہچانے کہ یہ دنیا بہت ہی معمولی اور حقیر شے ہے۔
3۔ علم کے فتنے محفوظ رہنے کا طریقہ یہ ہے کہ انسان اللہ کی مخلوق کے ساتھ تواضع و انکساری اختیار کرے۔
4۔ سلطنت کے فتنے سے بچنے کے لئے انسان یاد رکھے کہ دولت فانی ہے ایک دن ختم ہو جانی ہے۔ کبھی بھی ہمیشہ کے لئے نہیں ملتی۔
پہلے واقعہ میں غار والوں کا ذکر ہے یہ چند توحید پرست نوجوان تھے۔ جو ایک ظالم بادشاہ کے سامنے حق کا پرچم لئے ڈٹ گئے۔ ایک ظالم و جابر بادشاہ تھا جو اپنی قوم کو غیر اللہ کی عبادت کی دعوت دیتا تھا
چنانچہ چند نوجوان جو اللہ پر ایمان رکھتے تھے۔ عقیدہ توحید پر قائم تھے۔ اس بادشاہ کے خلاف کھڑے ہو کر حق کی آواز بلند کی۔ اس قصے میں نوجوانوں کے لئے بہت بڑا سبق ہے اصحابِ کہف نے اللہ کے دین کو بچانے کے لئے کوشش کی۔ انہوں نے اللہ سے دعا کی اور اپنے دین و ایمان کی حفاظت کے لئے اللہ کی پناہ طلب کی اللہ نے انہیں پناہ دی اور وہ غار میں 309 سال تک پڑے رہے۔ اور جب وہ بیدار ہوئے تو پورا ماحول بدل چکا تھا وہاں کے لوگ جو بت پرستی اور شرک میں مبتلا تھے توحید کے پرستار بن چکے تھے۔ اس سے سبق ملتا ہے کہ جو کوئی اپنے دین کو فتنوں سے بچانے کی لئے فرار ہوتا ہے تو اللہ اسے فتنوں سے محفوظ رکھتا ہے۔ جو اللہ سے پناہ طلب کرتا ہے اللہ اسے پناہ دیتا ہے اور اسے دوسروں کے لئے ہدایت کا زریعہ بنا دیتا ہے۔
سورہ کہف میں ایک واقعہ مال کے فتنے کے بارے میں ہے جس میں اللہ نے باغ والے کو بہت سی نعمتوں اور رزق کی فراوانی سے بخشا اس نے ناشکری کا اظہار کیا اسے ایک اللہ کا بندہ نیکی کا حکم دیتا اور برائی سے روکتا کہ ماشاءاللہ اور لا قوۃ الا باللہ کیوں نہ کہا؟ لیکن اس نے مال و دولت پر غرور کیا تو اللہ نے اس کے باغات کو تباہ کر کے سامانِ عبرت بنا دیا۔
تیسرا واقعہ علم کے فتنے کے بارے میں ہے اللہ نے اپنے نبی موسی کو اس فتنہ سے محفوظ رکھنا چاہاجب بنی اسرائیل نے ان سے پوچھا سب سے بڑا عالم کون ہے انہوں نے کہا میں ہوں ان کا جواب بر حق تھا اللہ نے انہیں تورات عطا فرمائی اللہ کی طرف سے انہیں نو واضح نشانیاں ملیں۔ اور وہ ظالم بادشاہ فرعون سے برسر پیکار تھا۔ جس نے رب ہونے کا دعوی کیا تھا لیکن ان سب کے باوجود اللہ نے ان کی سرزنش کی اور بتایا کہ ہمارا بندہ خضر ہے جو علم اس کے پاس ہے وہ تمہارے پاس نہیں۔ مفسرین کہتے ہیں کہ حضرت موسی علیہ السلام اس عالم سے ملاقات کے لئے 80 سال چلتے رہے۔ لہذا علم کے فتنے سے بچنے کا طریقہ یہ ہے کہ انسان اللہ کے لئے تواضع اور خاکساری اختیار کرے اور ہمیشہ اللہ کے اس فرمان کو یاد رکھے کہ تمہیں بہت کم علم دیا گیا ہے۔
چوتھے واقعے میں اللہ کے نیک بندے ذوالقرنین کا ذکر ہے جسے اللہ نے مشرق سے لے کر مغرب تک حکمرانی اسباب اور وسائل دیئے۔ اور اس بندے نے زمین میں تکبر و فساد کی بجائے عاجزی اور اصلاح سے کام لیا۔ لوگوں کو ظالموں کے شر سے بچایا۔ لوگوں کو یاجوج ماجوج کے شر سے بچانے کے لئے ایک قلعہ بند تعمیر کیا اور یاجوج ماجوج وہاں قید ہوگئے اور قیامت تک رہیں گے۔ یہاں تک کہ اللہ انہیں نکلنے کی اجازت دے دے۔
اس سورۃ کے تمام واقعات پر غور و فکر کریں۔ اور عبرت و نصیجت حاصل کرنی چاہیے ۔ بالخصوص اس سورۃ کی جمعۃ المبارک کے دن تلاوت لازمی کیجئے۔ اور پہلی دس آیات لازمی حفظ کر لینی چاہیے۔ تاکہ فتنہ دجال جو سب سے بڑا فتنہ ہے اس سے محفوظ رہیں۔
اللہ تعالیٰ قرآنِ حکیم کی بہترین سمجھ اور عمل کرنے کی توفیق دے۔ آمین
جزاکم اللہ خیراً کثیرا
@Nusrat_writes

Leave a reply