لاہور : قیام پاکستان سے لیکر اب تک جنوبی پنجاب سے صدر، وزرائے اعظم ، وزرائے اعلیٰ ، گورنر ، سینیٹرز ، صوبائی اور وفاقی وزراء ہونے کے باوجود اگر جنوبی پنجاب پسماندہ علاقہ ہے تو اس کے قصوروار اور ذمہ دار بھی یہی طاقت ور، وڈیرے، جاگیردار، گدی نشین ، صدر ،وزرائے اعظم ، وزرائے اعلیٰ ، گورنرز، سینیٹرز ، صوبائی اور وفاقی وزرا ء ہیں جو اپنے اپ کو معزز اور کمزوروں اور بے بسوں کو کمی کمین سمجھتے ہیں.

ہر دور میں اقتدار کے مزے چکھنے والے یہ وڈیرے بڑے بڑے شہروں میں محلات بنا کر رہتے ہیں اور کمی کمین ، غریب بیچارے جنوبی پنجاب کی گردوغبار ، محرومی ، بے بسی اور پسماندگی میں رہ کر وقت پاس کررہے ہیں. اقتدار کا مزہ چھکنے والوں کی اولاد لاہور ، اسلام آباد اور سمندر پار تعلیمی اداروں میں‌ مزے لوٹ رہی ہے اور غریب بیچارے اپنے بچوں کو کھلے آسمان تلے پڑھانے پر مجبور ہیں

جنوبی پنجاب میں جس طرح انسان زندگیاں بسر کررہے ہیں وہ قدیم تاریخ کے دور کو تازہ کردیتے ہیں. علاج معالجے کی سہولت نہیں ، پینے کے لیے صاف پانی میسر نہیں ، جہاں سے جانور پانی پیتے ہیں وہیں سے انسان پیاس بجھاتے ہیں. غریبوں کے بچے تعلیم حاصل نہیں کرپاتے تو سرداروں اور وڈیروں کی اولاد مہنگے ترین کالجوں اور یونیورسٹیوں میں عیاشیاں کررہے ہیں.100 سے زائد یہ وڈیرے بڑے بڑے عہدوں پر رہ چکے مگر جنوبی پنجاب کے لیے ان کو توفیق نہ ہوسکی کہ کچھ بہتری کا ہی سوج لیں

پاکستان کے سب سے بڑے صوبہ پنجاب کی وہ پٹی جو جنوب میں دریائے سندھ کے کنارے واقع ہے اس خطہ کو جنوبی پنجاب کا نام دیا جاتا ہے۔ جنوبی پنجاب ملتان، رحیم یار خان، بہاولپور، بھکر، لیہ، راجن پور، میانوالی، لیہ، ڈیرہ غازی خان، مظفر گڑھ ، خوشاب، لودھراں، وہاڑی، بہاولنگر ، خانیوال ، ساہیوال اور پاکپتن پر مشتمل ہے ، یہاں زیادہ تر نواب، وڈیرے ، خان ، مزاری، گورچانی، گیلانی، کھر، نوانی ، شہانی ، لغاری، ڈھانڈلہ، روکھڑی، شادی خیل، اعوان، اولکھ، سیال، شیخ ، رانا ، گجر برادریوں کے زعماء عرصہ دراز سے یہاں سیاہ و سفید کے مالک ہیں۔ صرف سیاست ہی نہیں یہاں معیشت پر بھی انہیں کا سکہ رائج ہے۔ جنوبی پنجاب کے کئی بڑے نام وزیر اعلیٰ ، گورنر اور وزیر اعظم کے عہدے پر تعینات رہے ہیں، باوجود اس کے وہ یہاں کے عوام کی محرومیوں کے ازالہ کے لیے موثر اقدامات نہ اٹھا سکے ہیں۔ قصہ یہیں پر ختم نہیں ہوتا، سینٹ، قومی اور صوبائی اسمبلی کے ایوانوں میں آج تک چند ایک ناموں کے علاوہ کسی نے آج تک یہاں کے باسیوں کے حقوق کے لیے نہ تو آواز بلند کی اور نہ ہی حکومت وقت سے کوئی موثر مطالبہ کرنے کی جسارت کی ہو۔

اب حال یہ ہے کہ پاکستان میں1970ء سے اب تک597 بااثر خاندان حکومت پر قابض ہیں۔ان خاندانوں میں سے379کا تعلق پنجاب سے،110کا سندھ،56کا کے پی کے،45کا بلوچستان جبکہ7کا تعلق وفاق کے زیر انتظام قبائلی علاقوں سے ہے۔ جنوبی پنجاب میں اب یہ شرح64فیصد تک جاپہنچی ہے۔ایک رپورٹ کے مطابق بلوچستان میں اب یہ شرح44فیصد،سندھ میں41فیصد،کراچی میں9فیصد،کے پی کے میں28فیصد اور فاٹا میں18فیصد تک جاپہنچی ہے۔1990ء کے نگران وزیراعظم غلام مصطفیٰ جتوئی کے 11افراد مختلف اسمبلیوں میں رہے۔2008ء میں جتوئی کے4بیٹے ملک کے تینوں قانون سازاداروں میں موجود تھے

راجن پور اور ڈیرہ غازیخان پنجاب کے دو ایسے اضلاع ہیں جہاں پر آج بھی سرداری نظام رائج ہے۔ ان دونوں اضلاع میں بہت سے قبائل آباد ہیں ان میں لغاری، کھوسہ، لُنڈ، بزدار، قیصرانی، نتکانی، گورچانی، دریشک، مزاری خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔ ان قبائل میں سے کچھ قبائل کو ن داری کا درجہ دیا گیا ہے۔ ان میں قیصرانی قبیلہ، بزدار قبیلہ، لُنڈ قبیلہ، کھوسہ قبیلہ، لغاری قبیلہ، دریشک قبیلہ، گورچانی قبیلہ اور مزاری قبیلہ شامل ہیں

اس وقت جنوبی پنجاب ملکی سیاست اور عدالت میں چھایا ہوا ہے، وزیراعظم عمران خان کا تعلق میانوالی سے ہے، وزیراعلیٰ پنجاب انکے ہمسائے ڈیرہ غازی خان کی تحصیل تونسہ سے ہیں، 18 جنوری کو حلف اٹھانے والے چیف جسٹس آف پاکستان سردار آصف سعید کھوسہ کا تعلق ڈیرہ غازی خان سے ہے، چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ کا تعلق رحیم یار خان سے ہے، اسی طرح متعدد جج بھی اسی علاقے سے ہیں، وزراء کو دیکھیں تو وفاق میں وزارت خارجہ مخدوم شاہ محمود قریشی کے پاس ہے، چودھری طارق بشیر چیمہ، مخدوم خسرو بختیار اور زرتاج گل کا تعلق بھی یہیں سے ہے، قومی اسمبلی میں چیف وہپ ملک عامر ڈوگر ملتان سے ہیں، پنجاب کے ڈپٹی سپیکر سردار دوست محمد مزاری، سید حسین جہانیاں گردیزی، زوار حسین وڑائچ، محمد جہاںزیب کھچی، شوکت علی لالیکا، سمیع اللہ چودھری، محمد محسن لغاری، حسنین بہادر دریشک صوبائی وزارت کا قلم دان سنبھالے ہوئے ہیں، چیف سیکرٹری پنجاب یوسف نسیم کھوکھر کا تعلق ملتان سے ہے۔

چوٹی زیریں کا شہر جو لغاری سرداروں کا گھر ھے۔سردار فاروق خان لفاری۔سردار جعفر خان لغاری MNA مقصود خان لغاری سابقہ وزیر آبپاشی پنجاب و سابقہ ضلع ناظم۔ان کے دادا سر نواب جمال خان چیف آف لغاری قبائل انگریزوں کے دور حکومت میں بھی وزیر تھے۔اس کے تین بیٹے تھے ۔نواب زادہ محمد خان لغاری ہمیشہ سیاست میں رہے MNAاور وزیر رہے۔سردار فاروق خان لغاری کے والد تھے ،نوابزادہ عطامحمد خان لغاری انگریزوں کے دور میں کمشنر ملتان تھے،وبزادہ محمود خان لغاری سیاست اور اقتدار میں رہے ہمیشہ وہ سردار مقصود خان لغاری کے والد تھے۔پھر ان کی اولاد ہمیشہ اقتدار میں رہا ،سردار فاروق خان لغاری ساری زندگی MNA.وفاقی وزیر اور صدر پاکستان بنے،اس کا بیٹا سردار جمال خان لغاری پہلے ضلع کے سوشل ایکشن کمیٹی کے چیرمین بنے۔پھر۔ضلع ناظم۔پھر سینٹر۔اس کے بعد MPA.بنے،سردار اویس خان لغاری ۔مشرف کے دور میں MNA.وفاقی وزیر انفارمیشن ٹیکنالوجی۔اس کے بعد پھر MNA۔اس کے بعد پھر وفاقی وزیر پانی وبجلی۔چیرمین فورٹ منرو ڈویلپمنٹ اتھارٹی ۔چیرمین جنگلات پراجیکٹ جنوبی پنجاب،سردار جعفر خان لغاری ساری زندگی MNAابھی تک۔ہر حکومت میں اس کا عمل دخل رہا، مینا لغاری MNAبنی تھی مخصوص سیٹ پر،سردار یوسف خان لغاری ہمیشہ MPAرہے،سردار مقصود خان لغاری ہمیشہ MNAاورMPAاور وزیر۔ضلع ناظم رہے،سردار محمد خان لغاری۔MNAاورMPAہمیشہ رہے اور آج بھیMNAہیں،سردار محسن خان لغاری تین مرتبہ MPAایک دفعہ سینٹر اور آج صوبائی وزیر آبپاشی پنجاب ہیں،سردار محمود قادر لغاری۔تحصیل ناظم اور MPA۔سردار منصور خان لغاری MNAاور سینٹر رہے۔سردار احمد خان لغاری ضلع وائس چیر مین رہے۔اتنے اقتدار کے باوجود چوٹی کو ترقی کیوں نہیں دیا۔اپنے قوم کو ترقی کیوں نہیں دیا۔لغاری قوم کو ترقی کیوں نہیں دیا۔کوئی سوال کر سکتا ھے ان سے کسی کو کوئی جرات نہیں کیوں کہ یہ سردار ہیں اور رعایا کمی کمین

سردار فاروق احمد خان لغاری

1993ء میں سب سے زیادہ ووٹ لے کر رکن قومی اسمبلی منتخب ہوئے اور بےنظیربھٹو نے انہیں اپنی کابینہ میں وزیر خارجہ بنایا اور صدر پاکستان بننے تک وہ اسی عہدے پر فائز رہے۔ سردار فاروق احمد خان لغاری صدارتی انتخابات میں اپنے مدمقابل حزب اختلاف کے امیدوار سینیٹر وسیم سجاد کو شکست دے کر صدر منتخب ہوئے

غلام مصطفے کھر
غلام مصطفی کھر پنجاب سے تعلق رکھنے والے ایک پاکستانی سیاست دان ہیں۔ وہ سابقہ گورنر پنجاب اور وزیر اعلیٰ پنجاب بھی رہ چکے ہیں۔


مخدوم سجاد حسین قریشی
سجاد حسین قریشی پاکستان کے صوبے پنجاب کے 30 دسمبر 1985ء سے 9 دسمبر 1988ء تک گورنر رہے۔ ان کا تعلق پاکستان پیپلز پارٹی سے تھا۔ ان کے بیٹے شاہ محمود قریشی پاکستان کے ایک ممتاز سیاست دان ہیں جن کا تعلق پاکستان تحریک انصاف سے ہے۔


مخدوم احمد محمود 1990ء سے مسلسل تین مرتبہ قومی اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے جبکہ 2001ء سے 2005ء تک انہیں رحیم یار خان کے ضلعی ناظم ہونے کا بھی اعزاز حاصل رہا۔2008ء کے انتخابات میں وہ پنجاب اسمبلی کے رکن بنے۔مخدوم احمد محمود کی پاکستان کی سیاست میں اہم ترین کردار اداکرنے والی شخصیات سے قریبی رشتے داریاں ہیں۔ سابق وزیراعظم یوسف رضا گیلانی ، مسلم لیگ فنکشنل کے سربراہ پیر صبغت اللہ شاہ راشدی المعروف پیر پگارا ان کے قریبی عزیز ہیں، جبکہ سابق وفاقی وزیر صحت تسنیم نواز گردیزی ان کے پھوپھی زاد بھائی ہیں۔ان کے علاوہ تحریک انصاف کے مرکزی رہنما جہانگیرترین، مخدوم احمد محمود کے بہنوئی ہیں۔ سابق صدر فاروق لغاری بھی ان کے قریبی رشتہ داروں میں شامل رہے ہیں۔ان کے والد حسن محمود پیر پگارا سید مردان علی شاہ دوم کے برادر نسبتی تھے۔

سردار لطیف کھوسہ
سابق گورنر سلمان تاثیر کی توہین رسالت قانون کے حوالے سے بیانات نے ملکی سیاست اور مذہبی حلقوں میں ہلچل کی سی کیفیت پیدا کر دی۔ جس کا نتیجہ ممتاز قادری کے ہاتھوں سلمان تاثیر کی قتل کی صورت میں سامنے آیا۔ سلمان تاثیر کے قتل کے بعد صدر نے لطیف کھوسہ کو پنجاب کا گورنر مقرر کیا۔

سردار بلغ شیر مزاری
انہیں صدر غلام اسحٰق خان نے بطور نگراں وزیر اعظم تعینات کیا،ان کی میعاد اس وقت ختم ہوئی جب سپریم کورٹ آف پاکستان نے صدارتی حکم نامے کو غلط قرار دیا

سید یوسف رضا گیلانی
مخدوم یوسف رضا گیلانی 9 جون سنہ 1952 کو سرائیکستان کے ضلع ملتان کے ایک ایسے بااثر جاگیردار پیرگھرانے میں پیدا ہوئے جو پچھلی کئی نسلوں سے سیاست میں مضبوطی سے قدم جمائے ہوئے ہے۔ سید صاحب کی مادری زبان سرائیکی ہے- ملتان کی درگاہ حضرت موسی پاک کا گدی نشین ہونے کی بنا پر ان کا خاندان مریدین یا روحانی پیروکاروں کا بھی وسیع حلقہ رکھتا ہے۔۔ یوسف رضا گیلانی نے 1970 میں گریجویشن اور 1976 میں یونیورسٹی سے ایم اے صحافت کیا۔ یوسف رضا گیلانی فروری 2008 کے انتخابات میں ملتان سے پیپلز پارٹی کے ٹکٹ پر پانچویں مرتبہ رکن اسمبلی منتخب ہوئے ہیں۔ وہ پاکستان کے 24 ویں وزیر اعظم ہیں۔ 2012ء تک مسلسل چار سال وزارت عظمیٰ پر فائز رہنے کے بعد وہ تاریخ میں پاکستان کا سب سے لمبی مدت وزیر اعظم رہنے کا اعزاز حاصل کیا۔ 19 جون 2012ء کو توہین عدالت کے مقدمہ میں سزا کی وجہ سے پارلیمان رکنیت اور وزیر اعظم کے عہدے سے برطرف کر دیا گیا۔

شاہ محمود قریشی
شاہ محمود قریشی زرداری حکومت میں پاکستان کے وزیر خارجہ رہے 31 مارچ 2008ء تا فروری 2011ء پیپلز پارٹی کے فعال رکن رہا۔ زرداری حکومت سے بدظن ہو کر وزارت سے استعفی دے دیا اور بالآخر نومبر 2011ء میں زرداری جماعت اور پارلیمان سے بھی مستعفی ہو گئے۔[ اور پاکستان تحریک انصاف میں شمولیت اختیار کر لی۔اور اس وقت وہ عمران خان کی کابینہ میں وزیر خارجہ پاکستان کے طور پر خدمات سر انجام دے رہے ہیں

سردار دوست محمد کھوسہ
1999ء میں اپنے والد کی چھوڑی ہوئی نشست پر پنجاب اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے۔گزشتہ آٹھ سالوں سے وہ مسلم لیگ ن کے ڈیرہ غازی خان کے صدر بھی رہے۔2007-2008 تک تین ماہ وہ پنجاب کے وزیر اعلیٰ بھی رہے

سردار ذوالفقار کھوسہ
پنجاب کا گورنر 18 اگست 1999ء تا 12 اکتوبر 1999ء۔

ملک محمد رفیق جوانہ
ملک محمد رفیق رجوانہ پاکستان کے صوبہ پنجاب کے سابقہ گورنر ہیں، وہ 10 مئی 2015ء سے 18 اگست 2018ء تک اس عہدہ پر فائز رہے۔ ان سے پہلے پنجاب کے گورنر چوہدری محمد سرور تھے جو ایک معروف سیاست دان تھے۔ آپ نے 2 اگست 2013ء کو یہ عہدہ، سابقہ گورنر مخدوم احمد محمود کے استعفی کے بعد سنبھالا تھا۔ 29 جنوری، 2015ء کو انہوں نے گورنر پنجاب کے عہدے سے استعفی دے دیا ان کے استعفٰی کے بعد وفاقی حکومت نے ملک رفیق رجوانہ کو یہ عہدہ دیا۔

سردار عثمان بزدار
پنجاب کے موجودہ وزیراعلیٰ ہیں اور بزدار قبیلے سے تعلق رکھتے ہیں‌

Shares: