کیا آپ جانتے ہیں کہ بالی ووڈ کنگ شاہ رخ خان کے بیٹے آریان خان اور بالی ووڈ شہنشاہ امیتابھ بچن کی پوتی نویا نویلی نندا کے درمیان مضبوط رشتہ ہے؟-
باغی ٹی وی : نویا نویلی نندا اور آریان خان نے لندن میں ایک ساتھ تعلیم حاصل کی اور مبینہ طور پر وہ قریبی دوست ہیں گزشتہ برس کے آخر میں اس سال نویا نویلی نندا نے نیویارک کی فورڈم یونیورسٹی سے گریجویشن کیا اور وبائی امراض کی وجہ سے ایک ورچوئل تقریب میں شرکت کی تھی-
"گریجویشن کی تقریب باقاعدہ طور پر نیویارک میں آج رات کالج کے احاطے میں منعقد ہوئی جسے ایک ٹی وی چینل پر نشر کیا گیا نویا نے اس موقع پر پورے خاندان کو اکٹھا کیا جبکہ بگ بی نے اس خاص لمحے کو بیان کیا تھا۔
دوسری طرف نویا اور آریان کے درمیان کافی مضبوط دوستی ہے آرایان کے ساتھ لی گئیں تصاویر نویا نے اپنے انسٹاگرام پر شئیر کیں جو سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر کافی وائرل ہوئیں اور لوگوں کی طرف سے مختلف قیاس آرائیاں سامنے آئیں-
دوسری جانب آرایان خان بھی اپنے سوشل میڈیا پر نویا کے مختلف اوقات میں لی گئیں تصاویر شئیر کرتے رہتے ہیں جن کو مداھوں کی جانب سے خوب سراہا جاتا ہے-
اس کے علاوہ ایک ایم ایم بھی سامنے آیا جس میں دونوں کو بے حد نزدیک دیکھا ویڈیو کلپ کو دیکھ کر اس بات کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ دونوں میں دوستی کس حد تک اور کتنی مضبوط ہے-
جبکہ ہندو انتہا پسندوں کی جانب سے دونوں کی دوستی کو ” لو جہاد ” کا نام دیا جا رہا ہے اور قیاس آرائیاں کی جا رہی ہیں کہ شاید اسی لیے آریان کو جھوٹے کیس میں پھنسا کر سزا دی جا رہی ہے کہا جا رہا ہے کہ یہ انتےہلا پسد ہندوؤں اور مودی سرکار کی سازش ہے جس سے دیگر خانز بھی دباؤ کا شکار ہیں جبکہ ہندو اداکار ان کی شہرت اور کامیابیوں سے تنگ ہیں کیونکہ خانز کے بچے اس عمر میں بھی ستارے بنے ہوئے ہیں اور کافی شہرت رکھتے ہیں-
جبکہ شاہ رخ کے چند مداحوں کا ماننا ہے کہ آریان خان کا مسئلہ صرف اس لیے میڈیا پر اچھالا جا رہا ہے تاکہ گذشتہ دنوں گجرات کی بندر گاہ سے پکڑی جانے والی تین ہزار کلو گرام منشیات سے توجہ ہٹائی جا سکے۔
یاد رہے کہ گذشتہ ماہ گجرات کی ایک بندرگاہ سے ہزاروں کروڑ روپے مالیت کی ہیروئن پکڑی گئی تھی اور اس بندرگاہ کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ انڈیا کے وزیر اعظم نریندر مودی کے قریب کہے جانے والے بڑے تجارتی گروپ ’اڈانی گروپ‘ کے زیر نگرانی چلتی ہے۔
جبکہ تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ آریان کی گرفتاری کی دستاویزات کے مطابق ان سے ملنے والی منشیات کی مقدار اتنی کم تھی کہ انھیں حراست میں رکھنے کا کوئی جواز نہیں۔ آریان کے وکیل ستیش مانشندے نے سختی سے اپنے مؤکل پر عائد الزامات کی تردید کی ہے۔
"لوجہاد ” کیا ہے؟
بھارتی ریاست مدھیہ پردیش کے وزیر داخلہ نروتم مشرا نے اپنے ایک بیان میں کہا تھا کہ اسمبلی کے آئندہ اجلاس میں ’لو جہاد‘ (Love Jihad) کے خلاف ایک بل پیش کیا جائے گا جس میں ’لو جہاد‘ کو غیر ضمانتی جرم قرار دیتے ہوئے کلیدی ملزم اور اس کا ساتھ دینے والوں کے لیے پانچ سال کی سخت سزا کا اہتمام کیا جائے گا۔
انہوں نے دعویٰ کیا کہ جبراً تبدیلیِ مذہب (ہندو سے مسلمان) بنا کر شادی کروانے کا سلسلہ اب بہت تیزی سے پھیل رہا ہے، اس لیے ریاستی حکومت اسمبلی میں اس کے خلاف قانون لانے کی تیاری کر رہی ہے۔ واضح ہو کہ اس سے پہلے بھی ریاستی حکومت کی طرف سے اس ضمن میں قانون سازی کا اشارہ دیا جا چکا تھا۔ اس مہینے کی ابتدا میں ریاست کے وزیراعلیٰ شیوراج سنگھ چوہان نے کہا تھا کہ ’لو کے نام پر کوئی جہاد نہیں ہو گا۔ جو ایسی حرکت کرے گا، اسے ٹھیک کر دیا جائےگا اور اس کے لیے قانونی نظام بنایا جائے گا۔
گذشتہ ایک دہائی میں جب کوئی غیر مسلم (خاص طور پر ہندو) لڑکی ایک مسلم لڑکے سے شادی کرتی ہے تو ہندوتوا وادی تنظیموں کی طرف سے یہ دعویٰ کیا جاتا ہے کہ شادی ایک سازش کے تحت کی گئی ہے اور یہ تنظیمیں اس طرح کی شادی کو ’لو جہاد‘ کا نام دیتی ہیں۔ ان کا الزام ہے کہ مسلمان بین الاقوامی سازش کے تحت کرتی ہیں، جس کا حتمی مقصد اسلام اور مسلمانوں کا غلبہ قائم کرنا ہے۔
اس حوالے سے گزشتہ برس ماہ ستمبر میں بھارت میں ہندوتوا آئیڈیالوجی کی سرکردہ تنظیم راشریہ سویم سیوک (آر ایس ایس) کے ہندی ترجمان رسالے ’پانچ جنیہ‘ نے ایک کور سٹوری شائع کی تھی جس کا عنوان تھا ’پیار کا اسلامی قتل۔‘
اس سٹوری میں دعویٰ کیا گیا تھا کہ مسلمان لڑکے ایک سازش کے تحت اپنا نام بدل کر ہندو لڑکیوں سے پیار کرتے ہیں، پھر لڑکی کا مذہب بدلوا کر شادی کرتے ہیں اور آگے چل کر وہ کسی اور لڑکی کو اپنا شکار بناتے ہیں اور پہلی کو اپنے راستے سے ہٹانے کے لیے اسے قتل کر دیتے ہیں۔
سٹوری کے مطابق اس طرح کی دھوکہ دہی، مذہب تبدیل کروانے، نکاح اور قتل کی ترغیب ان مسلم نوجوانوں کو ان تنظیموں سے ملتی ہے جو بھارت کو اسلامی ملک بنانا چاہتے ہیں۔
تاہم ماہرین ایسے تمام الزامات اور دعووں کوسفید جھوٹ قرار دیتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ سب باتیں مسلمانوں کے خلاف پروپگنڈا کے سوا کچھ نہیں ہے۔
کیرالہ کے سابق ڈائریکٹر جنرل آف پولیس این سی استھانا کا کہنا تھا کہ ان دعووں میں کوئی حقیت نہیں ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ’اگر ہندو لڑکیوں کو زبردستی مسلمان بنا کر شادی کرنے پر مجبور کیا جا رہا ہے اور یہ قانون اس سے نمٹنے کے لیے بنایا جا رہا ہے تو ملک کی مختلف ریاستوں میں پہلے سے ہی جبراً تبدیلیِ مذہب کے خلاف قانون موجود ہے۔ حکومت کو اس کا استعمال کرنا چاہیے۔‘
این سی استھانا مزید کہتے ہیں کہ ’جبراً تبدیلیِ مذہب کے خلاف قانون سے بھی اگر اس سے مبینہ مسئلہ کا حل نہیں ہوتا ہو تو ایسا کرنے والوں کے خلاف اغوا کرنے کا مقدمہ چلایا جا سکتا ہے اگر لڑکی کے ساتھ زبردستی ہوئی ہے۔ اغوا کرنے کے جرم میں دس سال کی سزا ہو سکتی ہے جبکہ مجوزہ قانون کے تحت تو صرف پانچ سال سزا کی تجویز ہے۔‘
لو جہاد کے مبینہ معاملے میں ریاست کیرالہ کا نام اس لیے بھی اہم ہے کیونکہ یہاں سب سے پہلے 2009 میں ’ہندوجاگرتی‘ نامی ایک ویب سائٹ نے دعویٰ کیا تھا کہ کیرالہ میں مسلم یوتھ فورم نام کی تنظیم نے ’لو جہاد‘ کا ایک پوسٹر لگوایا ہے، جس میں مبینہ طور پر ہندو لڑکیوں کو ’پیار و محبت کے جال میں پھنسا کر‘ ان کامذہب تبدیل کروانے اور پھر ان سے شادی کر لینے کی بات کی گئی ہے۔
اسی کے بعد ہندوتوا تنظیموں کی جانب سے اس طرح کے دعوے ملک کے دوسرے حصوں میں بھی کیے جانے لگے۔ تاہم کیرالہ پولیس کی تفتیش میں’لو جہاد‘ کے الزام کو جھوٹا پایا گیا۔
اس کے علاوہ دوسال تک چلنے والی تفتیش کے بعد کیرالہ ہائی کورٹ نے جانچ کو بند کرنے کا حکم دیتے ہوئے کہا تھا کہ ’ہمارے سماج میں بین المذہبی شادی ایک معمولی بات ہے اور اس میں کوئی جرم نہیں ہے۔‘
قابل ذکر بات یہ بھی ہے کہ رواں سال کے آغاز میں خود نریندر مودی حکومت پارلیمان میں کہہ چکی ہے کہ موجودہ قوانین کے مطابق لو جہاد جیسی کوئی چیز نہیں ہے اور نہ ہی اس وقت کسی مرکزی تفتیشی ایجنسی کے پاس ایسا کوئی کیس ہے۔