اسٹینڈنگ کمیٹیوں کی کارروائی بھی ٹی وی پرعوام تک پہنچانے کا فیصلہ
وزیراعظم شہبازشریف سے ترکیہ کے نئے سفیر مہمت پاچاجی کی ملاقات ہوئی ہے
وزیراعظم محمد شہبازشریف سے پاکستان میں ترکی کے نئے سفیر Mehmet Pacaci نے آج اسلام آباد میں ملاقات کی. وزیراعظم نے سفیر کو ان کی تقرری پر مبارکباد دی اور پاکستان میں کامیاب مدت کے لیے ان کے لیے نیک خواہشات کا اظہار کیا۔ وزیراعظم نے کہا کہ پاکستان اور ترکی کے برادرانہ تعلقات باہمی اعتماد، افہام و تفہیم پر مبنی ہیں۔ انہوں نے امید ظاہر کی کہ سفیر کے دور میں دوطرفہ تعاون بالخصوص تجارت اور سرمایہ کاری کے شعبوں میں مزید مضبوط ہوگا۔ وزیر اعظم شہباز شریف نے جموں و کشمیر کے تنازع پر ترکی کی مستقل حمایت پر اظہار تشکر کیا.
جون 2022 میں ترکی کے اپنے دورے کو یاد کرتے ہوئے، وزیر اعظم نے بتایا کہ وہ ستمبر 2022 میں پاکستان میں اعلیٰ سطحی اسٹریٹجک کوآپریشن کونسل (HLSCC) کے 7ویں اجلاس کے لیے صدر رجب طیب ایردوان کا خیرمقدم کرنے کے منتظر ہیں۔ وزیراعظم نے پاکستان اور ترکی کے سفارتی تعلقات کی 75 ویں سالگرہ کی اہمیت کو بھی اجاگر کیا اور دونوں ممالک میں یادگاری تقریبات کے ذریعے اس سنگ میل کو احسن طریقے سے منانے کی اہمیت پر زور دیا۔
قبل ازیں وزیراعظم نے پارلیمنٹ کے بعد اسٹینڈنگ کمیٹیوں کی کارروائی بھی ٹی وی پر عوام تک پہنچانے کا فیصلہ کیا ہے ضابطے کی کارروائی پوری کرنے کے لیے وزیراعظم نے اسپیکرقومی اسمبلی کو خط لکھ دیا ،جس میں کہا گیا ہے کہ پی ٹی وی پارلیمنٹ کے آغاز کی صورت میں انقلابی قدم اٹھایا گیا تھا،پارلیمان کا نہایت کلیدی حصہ مجالس قائمہ کے اجلاسوں کی کارروائی بھی براہ راست نشر کی جائے،اس ضمن میں مطلوبہ حدود اور مناسب طریقہ کار وضع کرلیاجائے، سیاسی کارکن اور آئین کی تخلیق کا کارنامہ انجام دینے والی جماعت پارلیمنٹ کی اہمیت سے آگاہ ہیں، مریم اورنگزیب کی ر ہنمائی میں اس مرحلے کو تیزی سے مکمل کرلیا جائے،امید ہے کہ ہم سب کی یہ کاوش پارلیمان کی توقیر بڑھائے گی،نوجوان آئین، حقوق، جمہوری نظام میں پارلیمنٹ کی اہمیت اور کارکردگی سے آگاہ ہوں گے،
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ جائیداد کے اصل مالک ہیں یا نہیں؟ اٹارنی جنرل نے سب بتا دیا
صدارتی ریفرنس کیس، جسٹس قاضی فائز عیسیٰ سپریم کورٹ پیش ہو گئے،اہلیہ کے بیان بارے عدالت کو بتا دیا
علاوہ ازیں صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے صحافیوں کے خلاف تشدد کے واقعات کا نوٹس لے لیا ،صدر مملکت نے وزیراعظم کے نام خط میں صحافیوں اور میڈیا پرسن کی ہراسیت اور تشدد کے بڑھتے ہوئے رجحان پر گہری تشویش کا اظہار کیا اور کہا کہ صحافیوں کے خلاف تشدد کے واقعات عدم برداشت کی ذہنیت کی عکاسی کرتے ہیں ، ایسے واقعات سے جمہوریت کے مستقبل اور آزادی ِاظہار ِرائے پر منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں ، آئین کا آرٹیکل 19 اور اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے چارٹر کا آرٹیکل 19 آزادی اظہار رائے کی ضمانت دیتا ہے ،پاکستان میں خوف پیدا کرنے کے علاوہ ایسے واقعات بین الاقوامی توجہ میں آتے ہیں اور ملک کا تاثر داغدار کرتے ہیں ،مختلف بین الاقوامی تنظیموں نے اپنی رپورٹوں میں صحافیوں کو ہراساں کرنے ، دھمکیاں دینے اور جسمانی تشدد کو پاکستان کی مایوس کن پوزیشن کی بنیادی وجوہات قرار دیا ہے،صدر مملکت نے خط میں صحافیوں کے تحفظ کی کمیٹی اور ہیومن رائٹس واچ کی رپورٹوں کا بھی حوالہ دیا اور کہا کہ رپورٹ کے مطابق پاکستان میں 1992 سے 2022 تک 96 صحافیوں کو قتل کیا گیا ،عزیز میمن اور ناظم جوکھیو کو قتل کیا گیا، مطیع اللہ جان کو اسلام آباد کے ایک مصروف علاقے سے دن دیہاڑے اغوا کیا گیااسد علی طور اور ابصار عالم کو نامعلوم افراد نے حملہ کر کے زخمی کر دیا،ایسا لگتا ہے کہ آزاد رائے رکھنے والے میڈیا پرسنز کو دہشت کا نشانہ بنایا جارہا ہے ،پچھلی حکومتوں کے اقدامات یا بے عملی کو ایسی خلاف ورزیوں کو دہرانے کے لیے وجہ کے طور پر استعمال نہیں کیا جانا چاہیے ،یہ موازنہ ملک کو ترقی اور مثبت سمت میں لے جانے کے بجائے صحافیوں کے خلاف انتقامی کاروائیاں کرنے کا جواز بن جائے گا، آئین کے آرٹیکل 41 کے مطابق صدر کو تمام شہریوں کے لیے آزادی اظہار اور منصفانہ ٹرائل کے بنیادی حقوق کے تحفظ کو ممکن بنانا چاہیے،پاکستان ایک جمہوری ملک ہے جس میں دانشوروں اور صحافیوں پر ظلم و ستم نہیں ہونا چاہیے، وزیر اعظم قانون نافذ کرنے والے اداروں کے ذریعے صحافیوں اور میڈیا پرسن کے تحفظ کو یقینی بنائیں ،سیاست دان بھی صحافیوں کو نامعلوم اور دیگر عناصر کے غیر قانونی اقدامات سے بچانے کے لیے اپنا کردار ادا کریں،آئین کے آرٹیکل 46 کے تحت وزیر اعظم اس سلسلے میں کیے گئے اقدامات سے صدر کو آگاہ رکھیں ،