مزید دیکھیں

مقبول

وزیراعلیٰ پنجاب نے گندم کے کاشتکا روں کیلئے پیکج کا اعلان کر دیا

لاہور: وزیراعلیٰ پنجاب مریم نوازنے گندم کے کاشتکا روں...

ملک اب ترقی اور خوشحالی کی راہ پر چل پڑا ہے،وزیراعظم

اسلام آباد:وزیراعظم شہباز شریف نے کہا ہے کہ ...

سیالکوٹ: 3 ارب ڈالر سالانہ کمانے والا صنعتی شہر، ملکی معیشت کی ریڑھ کی ہڈی قرار

سیالکوٹ (باغی ٹی وی، بیوروچیف شاہد ریاض)ڈپٹی کمشنر سیالکوٹ...

قیدی سےملاقات،امریکی سفارتخانےکے ارکان اڈیالہ جیل جا پہنچے

امریکی سفارت خانے کے وفد نے قیدی سے ملاقات...

ریاستیں اپنے شہریوں ہی کی بدولت قائم رہتی ہیں

ریاستیں اپنے شہریوں ہی کی بدولت قائم رہتی ہیں
افغانستان میں اماراتِ اسلامی کی حکومت افغان مہاجرین کی دوبارہ آباد کاری کر کے ہی دنیا میں نام کما سکتی ہے

نصیب شاہ شینواری
افغانستان کی پچھلی چار دہائیوں کی تاریخ جنگ و جدل اور امن و امان کی مخدوش صورتِ حال سے دوچار رہی ہے۔ سال 1979 میں جب روس نے افغانستان پر قبضہ کرنے کی ٹھان لی تو افغانستان سے لاکھوں کی تعداد میں افغان شہری مہاجرین بن کر ہمسایہ ممالک میں پناہ لینے پر مجبور ہوئے۔

1980 کی دہائی کے اوائل میں پاکستان میں پناہ لینے والے افغان مہاجرین کی تعداد تقریباً 30 لاکھ تھی جبکہ 1980 کے آخر تک یہ تعداد 35 لاکھ سے تجاوز کر گئی۔ 1990 کی دہائی میں کچھ افغان مہاجرین روس کے انخلا کے بعد واپس افغانستان چلے گئے لیکن 1995 کے دوران طالبان کی حکومت آنے کے بعد ایک دفعہ پھر افغانستان سے بڑی تعداد میں ہجرت ہوئی۔ اسی طرح سال 2001 میں افغانستان پر امریکی قیادت میں نیٹو فورسز کے حملے کے بعد افغان مہاجرین کی ایک اور بڑی ہجرت واقع ہوئی اور لاکھوں کی تعداد میں افغان مہاجرین پاکستان آئے۔ پاکستان نے مہاجرین کو پناہ گزین کیمپوں میں جگہ دی جبکہ کئی شہروں میں بھی افغان برادریاں آباد ہو گئیں خاص طور پر خیبر پختونخوا، بلوچستان اور کراچی میں۔

تاریخ کے اوراق پر نظر ڈالیں تو پاکستان وہ واحد مسلم ہمسایہ ملک تھا جس نے افغان شہریوں کے لیے پاک افغان بارڈر کھلا رکھا اور افغان مہاجرین بغیر کسی رکاوٹ کے پاکستان ہجرت کر کے پاکستان آگئے۔ پاکستان نے ایک اسلامی ملک ہونے کے ناطے افغان مہاجرین کو خیبر پختونخوا کے مختلف اضلاع میں کیمپوں میں پناہ دی۔ پاکستان وہ واحد اسلامی ملک تھا جہاں افغان مہاجرین کو کیمپوں سے باہر کاروبار کرنے اور تعلیم حاصل کرنے کی آزادی تھی۔ اسی کاروباری اور تعلیمی آزادی کی وجہ سے آج افغان مہاجرین بڑی بڑی کمپنیوں اور کاروباروں کے مالک ہیں اور وہ اب بھی پاکستان میں آزادانہ طور پر کاروبار کر رہے ہیں۔

یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ پاکستان میں افغان مہاجرین نے اعلیٰ تعلیم حاصل کر کے اپنے ہی ملک کی ترقی و خوشحالی میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ افغانستان کی تقریباً ہر وزارت اور دیگر حکومتی اداروں میں کام کرنے والے وہ لوگ ہیں جنہوں نے پاکستان میں اعلیٰ تعلیم حاصل کی اور اب بھی وہ افغانستان کی حکومت اور عوام کی ترقی کے لیے اہم کردار ادا کر رہے ہیں۔ لیکن افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ جب کبھی پاکستان کی حکومت کسی ناگزیر وجوہات کی بنا پر افغان مہاجرین کو عزت کے ساتھ واپس اپنے ملک بھیجنا چاہتی ہے تو یہی افغان مہاجرین جنہوں نے یہاں پاکستان میں تعلیم حاصل کی اور کاروبار کیا اسی پاکستان کے خلاف ایسے الفاظ استعمال کرتے ہیں جن سے نفرت اور تعصب کی بو آتی ہے۔

اگر دنیا کے دیگر ممالک جیسے امریکا اور یورپی ممالک کی مہاجرین کے حوالے سے پالیسیوں پر نظر ڈالی جائے تو آئے روز امریکا جیسا ترقی یافتہ اور خوشحال ملک بھی مہاجرین اور تارکینِ وطن کے حوالے سے سخت پالیسیاں نافذ کرتے ہیں۔ ایسے میں اگر پاکستان جیسا ترقی پذیر ملک افغان مہاجرین کے حوالے سے وطن واپسی کی پالیسی کا اعلان کرتا ہے تو پھر انگلی صرف پاکستان کی طرف اٹھائی جاتی ہے حالانکہ ہر ملک کی داخلہ و خارجہ پالیسی آزاد ہوتی ہے اور ہر ریاست اپنے ملک و عوام کی بقا کے لیے پالیسیاں وضع کرتا اور ان پالیسیوں کو نافذ بھی کیاجاتا ہے۔

یہاں ایک اہم نقطہ کی طرف اشارہ ضروری ہے کہ کسی بھی ریاست کے لیے آبادی یعنی شہری ایک لازمی جزو ہیں اور ریاستوں کا شہریوں کے بغیر وجود ناممکن ہے۔ ایسے میں جب افغان شہری پاکستان سے واپس اپنے ملک جاتے ہیں تو ذمہ داری افغانستان کی حکومت پر عائد ہوتی ہے کہ وہ اپنے شہریوں کی دوبارہ آباد کاری کے لیے ایمرجنسی بنیادوں پر کام کرے۔ افغانستان کی حکومت کو چاہیے کہ پاکستان سے افغان مہاجرین کی واپسی کے فیصلے کو دل و جان سے قبول کرے اور اس کی تعریف کرے کیونکہ انہی افغان شہریوں کی وجہ سے افغانستان ترقی و خوشحالی کی راہ پر گامزن ہو سکتا ہے۔ جس ملک میں شہری آباد نہ ہوں وہاں حکومت اور ریاست کا نام بے معنی رہ جاتا ہے۔

افغانستان کے لیے ایک اہم قدم یہ بھی اٹھانا ہوگا کہ وہ امریکا اور دیگر ممالک کے ساتھ اچھے تعلقات استوار کر کے افغان شہریوں کو اپنے ہی ملک میں دوبارہ آباد کرنے کے لیے عملی اقدامات کرے۔

ڈاکٹرغلام مصطفی بڈانی
ڈاکٹرغلام مصطفی بڈانیhttp://baaghitv.com
ڈاکٹرغلام مصطفی بڈانی 2003ء سے اب تک مختلف قومی اور ریجنل اخبارات میں کالمز لکھنے کے علاوہ اخبارات میں رپورٹنگ اور گروپ ایڈیٹر اور نیوز ایڈیٹرکے طورپر زمہ داریاں سرانجام دے چکے ہیں اس وقت باغی ٹی وی میں بطور انچارج نمائندگان اپنی ذمہ داری سرانجام دے رہے ہیں