یہاں بات ہورہی تھی کہ دراصل عاصمہ جہانگیر پر بولنے کے لیے آئی اے رحمان صاحب کو آنا تھا۔ تو شاید وہ عاصمہ کے حوالے سے اور انسانی حقوق کے حوالے سے اور زبانوں کے حوالے سے اپنے خیالات کا اظہار جس پیمانے پر بھی کرتے وہ تو ناممکن ہے لیکن ظاہر ہے کہ میں بھی چاہوں گی کہ اس سوچ کے گرد بات کر سکوں۔ مجھے خیال آیا کہ واقعی آئی اے رحمان صاحب کو اس جگہ بلانایوں بھی ضروری ہے خاص طور پر اس ملک میں جہاں انسانی حقوق کاز بانوں کے ساتھ بڑا گہرا تعلق ہے۔ حالانکہ ایسا نہیں ہونا چاہیے لیکن اس وقت ہم پاکستانی معاشرے کو جس طرح دیکھ رہے ہیں جو شہبیہ ہمارے سامنے ابھر کر آرہی ہے اس میں ہم لوگوں کو مختلف حصوں میں بٹتا ہوا دیکھ رہے ہیں اگر ہم کاٹنا شروع کر دیں میں لفظ کاٹنا جان بوجھ کر استعمال کر رہا ہوں۔

لیکن اگر آپ اس کو باند ھنا شروع کر دیں تو وہ باقی کتنا بچتا ہے۔ کسی کو زبان کی بنیاد پر کاٹا جاتا ہے پھر مذہب کی بنیاد پر کاٹا جاتا ہے، پھر فرقوں کے حصے سے کوئی کٹتا ہے ۔ پھر سیاسی سوچ اور اختلاف کی وجہ سے وہ کٹتا ہے تو انسان باقی اتنا زراسا بچ جاتا ہے۔ اس معاشرے میں جو اتناسا انسان بچ جاتا ہے اگر اس کے حقوق کی ہم بات کر رہے ہیں آج اس کو جس طرح سے دیکھ رہے ہیں انسان کو پیروں تلے کچلنا بھی بہت آسان ہے انسان کو زندہ جلا دینا بھی بہت آسان ہے سب کچھ بہت آسان ہے۔ گولی و غیر ہ تو کوئی چیز ہی نہیں ہے پھر یہی انسان اس کو اور بھی باٹنا شروع کریں تو یہ عورت اور مرد میں بھی بٹ جاتا ہے، یہ بٹا کٹا، باقی بچا ہوا تھوڑا سابچ گیا انسان ہے ۔

اس تھوڑے سے بچ گئے انسان کو اگر دوبارہ سے تخلیق کرنا ہے تو ہمیشہ سے میری سوچ یہ رہی ہے، میرا یقین یہ رہا ہے کہ انسان دو بار تخلیق ہوتا ہے ایک بار جب وہ پیدا ہوتا ہے اور تخلیق ہو کر دنیا میں آتا ہے اور دوسری بار جب وو خود کو دوبارہ تخلیق کرتا ہے۔ اور جب وہ دوبارہ خود کو تخلیق کرتا ہے تو وہ تنہا خود کو تخلیق نہیں کرتا ہے، اپنے ساتھ کئی انسانوں کو اپنے ارد گرد کے کئی انسانوں کو وہ ری کریٹ از سر نو تخلیق کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے

سچی بات تو یہ ہے کہ ان ساری چیزوں میں زبان ایک ہے۔ وہ ہے محبت کی زبان۔ انسان کی انسان سے محبت کی زبان۔ ڈیپنڈ کرتا ہے کہ اظہار کرنے والا جس کے سامنے محبت کا اظہار کر رہا ہے اس کی زبان کیا ہے میں اگر سامنے والے انسان سے بلا تفریق محبت کا اظہار کرتا ہوں تو مجھے اس سے غرض نہیں ہونی چاہیے کہ وہ میرا ہم زبان ہے کہ نہیں۔ ڈپینڈ کرتا ہے کہ ہم دے کسے رہے ہیں سو بنیادی طور پر ہماری زبان محبت کی ہے مگر اس محبت کی زبان کو زندہ رکھنے کے لیے جو زبان کا معاملہ آتا ہے وہ یہ ہے کہ ایک دوسرے کی زبان کا احترام کیا جاۓ ،ایک دوسرے کی زبان کو تسلیم کرنا۔

پاکستان میں زبانوں کی بنیاد پر بڑے مسائل کھڑے ہوئے۔ اور ہم نے تو سندھ میں بیٹھ کر دیکھا ہے بڑے جھگڑے ہوئے ہیں، بڑی کشمکش ہوئی ہے بڑا اضطراب رہا ہے۔ بڑی ان سیکورٹی رہی ہے بڑے سوالات اٹھے ہیں۔ ۷۰ سال اس ساری کشمکش سے گزر کر آج جب ہم دیکھتے ہیں تو بات وہیں آکر رک گئی ہے کہ محبت کی کمی ہے۔ ورنہ اردو ایک عالی شان زبان ہے

سندھی ایک کمال کی زبان ہے اور اسی طرح باقی تمام زبانیں جو ہیں وہ اپنے اپنے اندر اپنے اپنے اظہار کا کمال رکھتی ہیں لیکن ۷۰ سال کے بعد پتہ چلا کھویا کیا کھوئی محبت کھویا کیا انسان کی انسان سے محبت انسان کا انسان کے لیے احترام انسانی حقوق کا احترام، زبانوں کا احترام کھودیا۔ آج ہم وہاں سندھ میں بیٹھ کر بھی کم سے کم میرے جیسے کچھ لوگ اور، ہماری یہ کوشش ہوتی ہے کہ ہم اس محبت کو جو زبان کی بنیاد پر اس کشمکش میں کھو گئی دوبارہ زبانوں کے احترام کے ساتھ حاصل کر سکیں۔ اور ہم دوبارہ آپس میں اسی طرح جڑ سکیں۔

اسی طرح پورے پاکستانی معاشرے کو صوبائی سطح پر شہر شہر ہر سطح پر اس سماج کی جو کشمکش ہے جو اضطراب ہے، جو زہر ہے جو نفرت ہے اس وقت ہم جو ابال دیکھ رہے ہیں اس کے لیے ہمیں محبت کی زبان سیکھنا پڑے گی اور زبانوں کا احترام کر نا پڑے گا۔ وہ زبان جس میں اظہار راۓ ہو رہی ہے۔ وہ زبان جس میں سوال اٹھایا جارہا ہے۔ وہ زبان جس میں جواب دینا ہے ان ساری زبانوں کے امتزاج کے ساتھ اس سوسائٹی کا بد نما چہرہ شاید آپ سب ہم سب اپنی اپنی سوچ رکھنے والے، اپنی اپنی سوچ کے مطابق کام کرنے والے شاید اس کو دوبارہ خوبصورت کر سکیں

بہت حساس موضوع ہے مادری زبان میں ابھی یہ اعداد وشمار دیکھ کر سوچ رہا تھا کہ یہ دھرتی جہاں پاکستان ہے یہ پوری دھرتی مادری زبانوں سے بھر پور اور آباد دھرتی۔ جہاں کی مائیں اپنے بچوں کے ساتھ اپنی اپنی زبانیں بولتی رہی ہیں۔ اس دھرتی کی اچانک ایک باہر کے شخص کے ساتھ شادی کر دی گئی اور کہا گیا کہ اب یہ زبان بولو حاکموں کی زبان بولو، اور یہاں کی مادری زبانوں کو پیچھے دھکیل دیا گیا اور ایک بہت ہی خوبصورت زبان اردو زبان۔ اس کو حکمرانوں کا لبادہ اوڑھا کر کھڑا کر دیا گیا کہ صاحب کو سلام کرو۔ اور اس کے بعد اختلافات، تضادات، تلخیوں اور یہ ساری کشمکش شروع ہو گئی۔ حالانکہ ہم دنیامیں دیکھتے ہیں، ہندوستان کو اپنے قریب دیکھتے ہیں کہ اپنی علاقائی زبانوں مادری زبانوں ، قومی زبانوں ان سب پر بڑا فخر کیا جاتا ہے، بڑی ترویج کی جاتی ہے

لیکن جیسے کہ ڈاکٹر طارق رحمان صاحب کہہ رہے تھے کہ اگر یہ اجلاس کسی اور علاقے میں ہورہا ہوتا بد نصیبی سے حاکم کو سلام کرنے کی خاطر جس طرح زبانوں کو یہاں پیچھے دھکیل دیا گیا۔ اس میں اب جو صور تحال سامنے آتی ہے وہ یہ ہے کہ جیسے بہت سی زبانیں وجود ہی نہیں رکھتی ہیں۔ اس دھرتی کے اوپر ان کا ذکر ضروری نہیں سمجھا جاتا ہے۔ ان زبانوں میں لکھے جانے والے ادب کا نہ ترجمہ ہوتا ہے نہ اس کی ضرورت محسوس کی جاتی ہے۔ 

بڑے بڑے لٹریری فیسٹول ہوتے ہیں ان میں سے اکثریت کی وہاں موجود گی ہوتی ہے، وہ انوائٹیڈ نہیں ہوتے ہیں یہ وہ سب چیزیں ہیں جو اردو زبان اور باقی لوگوں کی قومی زبان کی درمیان فاصلے کے طور پر بڑھتی چلی جارہی ہیں۔ یہ بہت اچھی کوشش ہے۔ ایسا پلیٹ فارم ضروری ہے اور اچھا ہے کہ یہ حکمرانوں کے بیچ ان کے صحن میں اس طرح کا میلہ منعقد کیا جاۓ، جس میں مادری زبانوں سے محبت کرنے ان کی اہمیت کو سمجھنے والے وہ تمام لوگ موجود ہوں جو ان پر کام کرتے ہوں انہیں بولتے بھی ہیں اور ان میں لکھتے بھی ہیں

ٹوئٹر اکاؤنٹ @GoBalochistan

Shares: